1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیسٹ سیلر چیتن بھگت کی باتیں ڈی ڈبلیو سے

عدنان اسحاق22 جولائی 2014

نوجوان بھارتی ادیب چیتن بھگت اب تک چھ ناولز لکھ چکے ہیں اور یہ سبھی ناولز اپنی رونمائی کے بعد سے بیسٹ سیلر کا درجہ حاصل کر چکے ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے بینکر ہیں اور انہوں نے چند سال پہلے ہی فکشن لکھنے کا آغاز کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1CgaY
21 جنوری 2012ء کی اس تصویر میں چیتن بھگت جَے پور ادبی میلے میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے ہیں
21 جنوری 2012ء کی اس تصویر میں چیتن بھگت جَے پور ادبی میلے میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے ہیںتصویر: PRAKASH SINGH/AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو کے شعبہء اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے چیتن بھگت نے کہا کہ وہ اپنی کہانیوں میں بھارت کی مڈل کلاس کو موضوع بناتے ہیں اور اُن دلچسپ کرداروں اور واقعات کو بیان کرتے ہیں، جو اُنہیں بھارت کے متوسط طبقے کی زندگیوں میں نظر آتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وہ بھارتی مڈل کلاس کو درپیش مسائل اور اُن مسائل کو حل کرنے کے امکانات پر بات کرتے ہیں اور شاید یہی چیز کہیں نہ کہیں قاری کے دل کو چھو جاتی ہے اور اسی لیے اُن کی کتابوں کو اتنی زیادہ مقبولیت بھی حاصل ہوئی ہے۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اُنہوں نے کہا کہ اُن کے جن شاہکاروں پر فلمیں بنی ہیں، اُن میں سے اُنہیں ’کائی پو چے‘ سب سے زیادہ پسند ہے، جو اُن کے ناول’ دی تھری مسٹیکس آف مائی لائف‘ پر مبنی تھی
ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اُنہوں نے کہا کہ اُن کے جن شاہکاروں پر فلمیں بنی ہیں، اُن میں سے اُنہیں ’کائی پو چے‘ سب سے زیادہ پسند ہے، جو اُن کے ناول’ دی تھری مسٹیکس آف مائی لائف‘ پر مبنی تھیتصویر: DW/A. Mondhe

39 سالہ چیتن بھارت کے انگریزی اور ہندی زبان کے اخباروں کے لیے کالمز بھی لکھتے ہیں اور سماجی ویب سائٹ ٹویئر پر بھی وہ کافی سرگرم ہیں۔ سیاسی اور سماجی موضوعات پر ان کی زیادہ تر ٹوئیٹس پر گرما گرم بحث بھی ہوتی ہے۔ وہ بائیسں اپریل 1974ء کو بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں پیدا ہوئے اور آج کل اپنی اہلیہ اور جڑواں بیٹوں کے ساتھ ممبئی میں رہتے ہیں۔

امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے انہیں بھارت میں انگریزی زبان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب کا خطاب دیا ہے۔ اسی طرح ٹائم میگزین نے انہیں دنیا کے ایک سو با اثر ترین افراد کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ اپنی گفتگو میں اپنے ادبی کیریئر کے آغاز کا ذکر کرتے ہوئے چیتن بھگت نے بتایا:’’میری پہلی کتاب 2004ء میں آئی تھی، ’فائیو پوائنٹ سَم وَن‘۔ تو مَیں نے غالباً 2001ء میں لکھنے لکھانے کا آغاز کیا تھا۔‘‘

مشہور بالی وڈ فلم تھری ایڈیئٹس کا مرکزی خیال چیتن کی پہلی کتاب ’فائیو پوائنٹ سَم وَن‘ سے لیا گیا تھا
مشہور بالی وڈ فلم تھری ایڈیئٹس کا مرکزی خیال چیتن کی پہلی کتاب ’فائیو پوائنٹ سَم وَن‘ سے لیا گیا تھاتصویر: AP

ایک بینکار ہوتے ہوئے ادیب بننے کا خیال اُنہیں کیسے آیا، اس سوال کے جواب میں چیتن بھگت کا کہنا تھا:’’بینکنگ میں رہتے ہوئے مجھے ایک خالی پن کا سا احساس ہو رہا تھا۔ مَیں سوچنے لگا کہ کیا پوری زندگی اسی شعبے میں گزر جائے گی۔ خیال آیا کہ زندگی میں کچھ اور بھی ہونا چاہیے تو مَیں نے ایک شوق کے طور پر لکھنا شروع کیا۔ تب یہ اندازہ نہیں تھا کہ کتابیں اتنی ہِٹ ہو جائیں گی اور لوگ مجھے جاننے لگیں گے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں اُنہوں نے کہا کہ اُن کے جن شاہکاروں پر فلمیں بنی ہیں، اُن میں سے اُنہیں ’کائی پو چے‘ سب سے زیادہ پسند ہے، جو اُن کے ناول’ دی تھری مسٹیکس آف مائی لائف‘ پر مبنی تھی۔ مشہور بالی وڈ فلم تھری ایڈیئٹس کا مرکزی خیال چیتن کی پہلی کتاب ’فائیو پوائنٹ سَم وَن‘ سے لیا گیا تھا۔ ان کے ایک اور شاہکار ’ٹو اسٹیٹس، دی اسٹوری آف مائی میریج‘ پر بھی فلم بن چکی ہے۔

چیتن بھگت کہتے ہیں کہ اُيہوں نے غالباً 2001ء میں لکھنے لکھانے کا آغاز کیا تھا اور اُن کا پہلا ناول 2004ء میں شائع ہوا تھا:’’مجھے اتنی زیادہ کامیابی کی امید نہیں تھی’۔’
چیتن بھگت کہتے ہیں کہ اُيہوں نے غالباً 2001ء میں لکھنے لکھانے کا آغاز کیا تھا اور اُن کا پہلا ناول 2004ء میں شائع ہوا تھا:’’مجھے اتنی زیادہ کامیابی کی امید نہیں تھی’۔’تصویر: festival.org

سلمان خان کی نئی فلم ’کِک‘ کا اسکرین پلے بھی چیتن نے ہی لکھا ہے۔ ڈی ڈبلیو کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا وہ اب باقاعدگی کے ساتھ فلموں کے اسکرین پلے لکھنا شروع کر دیں گے، چیتن بھگت نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، یہ کام بھی اُنہوں نے صرف شوق اور ایک تجربہ کرنے کے لیے کیا ہے:’’مَیں سلمان خان کے ساتھ کام کرنے کا موقع کھونا نہیں چاہتا تھا، اس لیے مَیں نے یہ کیا ہے۔ کتابیں آئندہ بھی میری ترجیح رہیں گی تاہم کبھی کبھار اسکرین پلے بھی لکھتا رہوں گا۔‘‘

منشی پریم چند، جارج اورویل اور ایرنسٹ ہیمنگوے کو اپنے پسندیدہ ادیب قرار دینے والے چیتن بھگت کی تازہ کتاب ’واٹ یَنگ انڈیا وانٹس‘ فکشن نہیں ہے بلکہ اس میں ملک کو درپیش اہم مسائل پر بات کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں وضاحت کرتے ہوئے چیتن بھگت نے کہا:’’جب کہانیوں کی وساطت سے مجھے لوگوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچنے کا موقع ملا تو مجھے خیال آیا کہ اپنی لکھنے کی طاقت سے مَیں نہ صرف لوگوں کو تفریح فراہم کر سکتا ہوں بلکہ شاید سماج کو بدلنے میں بھی مدد دے سکتا ہوں۔ مَیں دیکھنا چاہتا تھا کہ لوگوں کا کیا ردعمل ہوتا ہے۔ لوگوں نے کافی اس کتاب کو قبول کیا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ لوگ اتنا زیادہ شعور رکھتے ہیں، مختلف معاملات کے بارے میں اور یہ ادراک رکھتے ہیں کہ چیزیں بدلی جانی چاہییں، شاید اس وجہ سے بھی لوگوں کو یہ کتاب پسند آئی ہے۔‘‘