1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیرون ملک سے پاکستان کالز سستی نہ ہو سکیں

شکور رحیم31 جولائی 2014

پاکستان میں ایک عدالتی حکم امتناعی کے سبب حکومت کی جانب سے بیرون ملک سے آنے والی ٹیلی فون کالز پر یکم اگست سے آئی سی ایچ چارجز کے خاتمے کے فیصلے کا اطلاق نہیں ہو سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1Cmvx
تصویر: picture-alliance/dpa

وفاقی وزرات انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کام نے سترہ جون کو بیرون ملک سے آنے والی ٹیلی فون کالز پر 8.8 سینٹ فی منٹ انٹرنیشنل کلئیرنگ ہاؤس (آئی سی ایچ) چارجز یکم اگست سے ختم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

تاہم آئی سی ایچ میں شامل تیرہ کمپنیوں یا ایل ڈی آئیز(Long Distance International operators) نے رواں ماہ کے آغاز میں سندھ ہائی کورٹ سے اس حکومتی نوٹیفیکشن کے خلاف حکم امتناعی حاصل کر لیا تھا۔ درخواستگزار کمپنیوں نے سندھ ہائی کورٹ میں یہ مؤقف اپنایا کہ حکومت نے مذکورہ چارجز ختم کرنے سے پہلے ان سے مشاورت نہیں کی۔ اس مقدمے کی سماعت اب انیس اگست کو ہو گی۔

Mobiltelefon - Motorola StarTAC
تصویر: picture-alliance/dpa

بیرون ملک سے پاکستان آنے والی کالز پر یہ چارجز پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت نے 2012 ء میں عائد کیے تھے۔ اس حکومتی فیصلے کے نتیجے میں تمام ایل ڈی آئیز کو ان کے انٹرنیشنل سرکٹ ختم کرنے کا کہا گیا تھا اور صرف پاکستان ٹیلی کمیونیکشن کمپنی کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ بیرون ملک سے آنے والی کالز پر چارجز وصول کرنے کے بعد ایل ای ڈیز کو ان کا حصہ دے۔

اس حکومتی فیصلے کو نہ صرف بیرون ملک مقیم لاکھوں پاکستانیوں نے ناپسند کیا تھا بلکہ اندروں ملک بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا۔ پاکستان کے مسابقتی کمیشن نے تیس اپریل 2013 ء کو آئی سی ایچ کے معاہدے کو کالعدم قرار دے کر ایل ڈی آئیز میں مسابقت کی پہلی والی فضا بحال کرنے کا فیصلہ دیا۔ تاہم آئی سی ایچ میں شامل کمپنیوں نے اس فیصلے کے خلاف بھی سندھ ہائیکورٹ سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے۔

پاکستان انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوی ایشن کے کنوینر وہاج السراج کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو عدالت میں مضبوطی سے اپنا مقدمہ پیش کر کے حکم امتناعی کو خارج کرانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ خود پی ٹی اے کے مطابق آئی سی ایچ کے قیام کے بعد سے پاکستان آنے والی بین الاقوامی کالز میں چار سو فیصد کمی آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئی سی ایچ چارجز کے خاتمے سے ملک کو فائدہ ہو گاـ ’’ لابی جو پراپیگنڈہ کر رہی ہے اس سے حکومت کو نقصان ہو گا۔ اگر حتمی طور پر دیکھا جائے تو اس میں حکومت کو نقصان نہیں ہے۔ اس میں مجموعی طور پر ملک کو فائدہ ہے۔ اس سے جو دوسرے مسائل پیدا ہو رہے تھے انٹرنیٹ بلاکنگ ہو رہی تھی جو گرے ٹریفک ہو رہی تھی وہ ختم ہو گی تو اس سے غیر قانونی لابی کو نقصان ہو گا اور قانونی ٹریفک بہتر ہو گی۔‘‘

دوسری جانب آئی سی ایچ کے ترجمان وجاہت زیشان خان کا کہنا ہے پی ٹی اے ایک ریگولیٹر کا کام درست طور پر انجام نہیں دے رہی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک میں روزانہ گرے ٹریفک کی مد میں پندرہ سے بیس ملین منٹ جبکہ اور دی ٹاپ سروسز(او ٹٰی ٹی) یعنی سکائپ،ٹینگو،وائبر وٖغیرہ کے ذریعے ستر ملین منٹس کی ٹریفک ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں کہ آئی سی ایچ کی وجہ سے پاکستان میں بیرون ملک سے آنے والی کالز کے دورانیے میں کم آئی ہے۔ وجاہت زیشان نے کہا کہ ’’ ہم نے اس سے خود فائدہ اٹھایا۔ اس میں ہمارا حصہ یقینی بنایا گیا لیکن ہم جدوجہد کرتی اس معیشت میں 1.2 ارب ڈالرز سے زائد لائے ہیں۔ اس کو اتنا منفی طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ہم سمھجتے ہیں کہ انٹرنیشنل کیرئیرز کی بڑی مضبوط لابی ہے۔ یورپ میں بیٹھے انٹرنیشنل کیر ئیرز میں پاکستانی ملازمین ہیں یا کئی دفعہ مالکان بھی ہیں۔وہ بہت با اثر ہیں انہیں معلوم ہے کہ کس طرح چیزوں کو اپنے حق میں کرنا ہے انہوں نے اس کو منفی طور پر لیا ہے۔‘‘

Mobiltelefon - Mobira Cityman 1320
تصویر: picture-alliance/dpa

ترجمان کے مطابق سب سے زیادہ تقریبا ستر لاکھ پاکستانی خلیجی ریاستوں میں ہیں لیکن ان کو آئی سی ایچ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ انہیں پاکستان کال کرنے کے لیے وہی نرخ ادا کرنا پڑتے ہیں جو وہاں سے بھارت ،بنگلہ دیش یا سری لنکا کال کرنیوالے صارفین دیتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کو آئی سی ایچ کے خاتمے سے قبل اس کے فنی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ قانونی امور کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تھا تاکہ یہ جلد بازی میں کیے گئے ایک سیاسی فیصلے سے زیادہ عوامی فلاح کا عکاس فیصلہ بن سکتا۔