1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی نوجوانوں میں میتھ نامی دوا کے استعمال کا تشویش ناک رجحان

کشور مصطفیٰ30 جولائی 2014

ممبئی کے ماسینا ہسپتال کے صحت کی بحالی کے مرکز سے منسلک طبی عملے کا کہنا ہے کہ گزشتہ قریب دو سال کے دوران نوجوانوں میں ’کرسٹل میتھ‘ کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش کا باعث بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1CmUx
تصویر: picture-alliance/dpa

بھارتی نوجوانوں میں بہت تیزی سے مقبول ہونے والی ایک دوا ’کرسٹل میتھ‘ طبی ماہرین کے لیے گہری تشویش کا سبب بنتی جا رہی ہے۔ یہ نشاط انگیز دوا کم عمر افراد کو اپنا عادی بنا دیتی ہے۔ اس کے خلاف بھارتی ریاست ممبئی کے انسداد دہشت گردی کے اسکواڈ نے گزشتہ چند ہفتوں سے جنگ شروع کر رکھی ہے۔

ممبئی کے ماسینا ہسپتال کے صحت کی بحالی کے مرکز سے منسلک طبی عملے کا کہنا ہے کہ گزشتہ قریب دو سال کے دوران نوجوانوں میں ’کرسٹل میتھ‘ کے استعمال کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش کا باعث بن گیا ہے۔ اس مر کز کے ڈائریکٹر علی گبھرانی نے کہا،’’ہم نے اس سے قبل اس بارے میں کبھی سنا تک نہیں تھا۔ حال ہی میں ایک 14 سالہ نوجوان، جو ’کرسٹل میتھ‘ دوا کا عادی بن چُکا ہے، نے ہماری آنکھیں کھول دیں۔‘‘

ممبئی کے انسداد دہشت گردی اسکواڈ کے چیف ہیمانشو رائے نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس کا شمار جدید دور کی ادویات میں ہوتا ہے اور اسے تیار کرنا بہت آسان ہے کیونکہ اس کے اجزاءِ ترکیبی یہاں میسر ہیں۔‘‘

Indien Neu Delhi Straßenszene
بھارت میں ادویات کی فراہمی بہت سہل بنا دی گئی ہےتصویر: picture-alliance/Soeren Stache

’کرسٹل میتھ‘ کیا ہے؟

’ میتھ‘ دراصل نیوروٹاکسن یا اعصاب پر اثر انداز ہونے والا زہریلے مادے سے تیار کردہ دوا ہے۔ یہ مادہ سانپ کے زہر میں پایا جاتا ہے۔ اس سے تیار کردہ دوا کو تفریحی مصرف کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ اعصابی نظام میں تحریک پیدا کرنے والے ایجنٹ کا کام انجام دیتا ہے۔ یہ دوا نشاط انگیز ہوتی ہے اور اس سے جنسی خواہش کو تحریک ملتی ہے۔ اس کا استعمال کرنے والے افراد کا موڈ بہت خوشگوار رہتا ہے اور اس لیے وہ رفتہ رفتہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں۔

غیر قانونی طور پر تیار کردہ

ماہرین کا کہنا ہے کہ ’میتھ‘ کے اجزاءِ ترکیب بھارت میں غیر قانونی طور پر تیار کیے جاتے ہیں اور پھر انہیں قانونی ذرائع کی مدد سے کیمیکل انڈسٹری یا کیمیائی صنعت تک پہنچایا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے خلاف ضوابط موجود ہیں۔ نئی دہلی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار نارکوٹکس اسٹیڈیز اینڈ انیلیسس سے منسلک ایک ماہر اور تجزیہ کار رومیش بھٹاچاریہ کے بقول، ’’ایک سخت حکومت کے باوجود گزشتہ 15 برسوں کے دوران بھارت کی ادویات سازی کی صنعت میں قانون یا ضابطے سے بچنے کے لیے طرح طرح کے طریقہ کار بروئے کار لانے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔‘‘

Drogenmissbrauch in Indien
بھارت اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں نشہ آور اشیاء کا استعمال بہت زیادہ بڑھ گیا ہےتصویر: AP

رومیش بھٹاچاریہ کا کہنا ہے کہ ملک کی نوکر شاہی قوانین و ضوابط کو نافذ نہیں کرتی اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی کرنے والوں پر نظر رکھی جاتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ قوانین میں پائے جانے والے سقم کیمائی صنعت کے لیے نشہ آور ادوات سازی کے عمل کو سہل بنانے کا سبب بن رہے ہیں۔

بھارت کا شمار دنیا کے بڑے ادویات ساز صنعتی ممالک میں ہوتا ہے۔ بھارت کو کیمیائی مادے میتھ کی بنیادی اقسام Ephedrine اور Pseudoephedrine سے تیار کردہ ادویات کا منبع مانا جاتا ہے۔ یہ دونوں کیمیائی اجزاء قانونی طور پر ادویات سازی میں استعمال کی جاتی ہیں۔