1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی سیکرٹری خارجہ پاکستان میں، ’بھارتی مداخلت‘ بھی زیربحث

شکور رحیم، اسلام آباد3 مارچ 2015

پاکستانی سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ انہوں نے اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوئے اپنے بھارتی ہم منصب سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ بات چیت میں فاٹا اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت کا معاملہ اٹھایا ہے۔

https://p.dw.com/p/1EkVX
سبرامنیم جےشنکر

اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ اس بات چیت میں پاکستان کی طرف سے بھارتی سیکرٹری خارجہ کو لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی پر اسلام آباد کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔

ایس جےشنکر سے ملاقات کے بعد منگل کی شام اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ ان کی بھارتی سیکرٹری خارجہ سے مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ دونوں جانب سے سیاچن اور سرکریک کے تنازعات کے حل کے لیے مکالمت پر بھی اتفاق کیا گیا۔

چوہدری نے کہاکہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ سمجھوتہ ایکسپریس حادثے کی تحقیقات میں تاخیر کا معاملہ بھی اٹھایا ہے۔ پاکستان کی جانب سے جےشنکر کو فاٹا اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت فراہم کیے جانے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ ابھی اس معاملے پر زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہیے۔

Indien Pakistan Grenze Grenzübergang Wagah Punjab Fahnenzeremonie
تصویر: BEHROUZ MEHRI/AFP/Getty Images

پاکستان کی جانب سے سارک سربراہی کانفرنس کی میزبانی کے حوالے سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو اسلام آباد مدعو کرنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اعزاز احمد چوہدری کا کہنا تھا، ’’پاکستان تمام سارک ممالک کے سربراہان کو اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دے گا۔‘‘

آج منگل کے روز اپنے دو روزہ سرکاری دورے پر اسلام آباد پہنچنے والے بھارتی سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جےشنکر نے اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف اور پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔

ایک سرکاری بیان کے مطابق ایس جےشنکر نے منگل کی شام وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقا ت کی۔ پاکستانی وزیر ا عظم نے بھارتی سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان کو دونوں ممالک کے تعلقات کے لیے خوش آئند قرار دیا۔ اس موقع پر ایس جےشنکر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ایک خط بھی پاکستانی وزیر اعظم کے حوالے کیا۔

گزشتہ برس اگست میں بھارت کی طرف سے خارجہ سیکرٹریوں کی سطح کے مذاکرات کو یکطرفہ طور پر منسوخ کیے جانے کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان یہ پہلا اعلٰی سطحی سفارتی رابطہ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ ماہ کرکٹ ورلڈ کپ کے آغاز پر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو فون کر کے خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی سیکرٹری خارجہ سارک ممالک کا دورہ کر رہے ہیں اور وہ پاکستان بھی آئیں گے۔

آج اسلام آباد پہنچنے کے بعد بھارتی سیکرٹری خارجہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب اعزاز احمد چوہدری سے دفتر خارجہ میں ملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے مختصر بیان میں ایس جےشنکر نے کہا کہ بات چیت مثبت اور تعمیری ماحول میں ہوئی اور دونوں ممالک نے مشترکہ سرحد پر امن قائم رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملاقات میں ممبئی حملوں سمیت سرحد پار دہشت گردی کے امور پر بھارت کے دیرینہ موقف کو دہرایا گیا۔

Pakistan Nawaz Sharif
سبرامنیم جےشنکر پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے بھی ملےتصویر: Getty Images/S. Gallup

سبرامنیم جےشنکر نے کہا، ’’ملاقات میں دو طرفہ تعلقات پر بھی بات ہوئی اور دونوں جانب سے کھلے ذہن کے ساتھ ایک دوسرے کے تحفظات اور مفادات پر بات چیت کی گئی۔‘‘ ایس جےشنکر کے مطابق اس ملاقات میں دونوں ممالک نے مل جل کر کام کرنے اور اختلافات کم کرنے کے لیے باہمی اتفاق رائے کے نکات تلاش کرنے پر اتفاق بھی کیا۔

جنوبی ایشیائی ممالک کی علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کو مضبوط بنانے کے بارے میں بھارتی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان سارک کا اگلا چیئرمین ہوگا اور بھارت پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتا ہے تاکہ سارک اپنی بھرپور استعداد کے مطابق کام کر سکے۔

بھارتی سیکرٹری خارجہ نے منگل کے روز پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی سے بھی ملاقاتیں کیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ کے دورہ پاکستان سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کے سلسلے میں کسی غیر معمولی پیشرفت کی توقع نہیں اور نئی دہلی میں بی جے پی کی حکومت اقتدار میں آنے کے بعد سے پاک بھارت تعلقات میں جو تلخی آئی تھی، اس میں فوری کمی کے امکانا ت نظر نہیں آرہے۔ اس ضمن میں دونوں خارجہ سیکرٹریوں کی جانب سے الگ الگ کی جانے والی پریس کانفرنسوں کو بھی دوطرفہ تعلقات میں پائی جانے والی بداعتمادی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔