بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کا فوجی چوکی پر حملہ
27 نومبر 2014سری نگر سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق عسکریت پسندوں نے یہ حملہ ایک ایسے وقت پر کیا جب پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کی ایک دو روزہ سربراہی کانفرنس میں شریک ہیں۔ اس کانفرنس میں جنوبی ایشیا کی آٹھ ریاستیں آپس میں اقتصادی تعاون بڑھانے سے متعلق مشورے کر رہی ہیں۔
ایک سینئر بھارتی فوجی افسر نے روئٹرز کو بتایا کہ بھارتی فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے مابین آئے روز جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس فوجی اہلکار نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ آج جمعرات کے روز ہونے والا تازہ حملہ چار سے لے کر چھ تک عسکریت پسندوں نے آرنیہ نامی قصبے کے قریب نئی دہلی کے دستوں کی ایک چوکی پر کیا۔
بھارتی فوج کی یہ چوکی پاکستان کے ساتھ غیر متنازعہ اور تسلیم شدہ مشترکہ سرحد سے صرف قریب چار کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ مقامی وقت کے مطابق جمعرات کی دوپہر تک آخری اطلاعات آنے تک اس حملے میں ایک بھارتی فوجی ہلاک ہو چکا تھا اور ایک دوسرا فوجی شدید زخمی۔
سری نگر میں پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل شکیل بیگ نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ یہ عسکریت پسند، جو ’مبینہ طور پر پاکستانی علاقے سے سرحد پار کر کے وہاں آئے‘ تھے، ایک ایسے بنکر میں پناہ گزین ہو گئے، جو اب بھارتی دستوں کے استعمال میں نہیں تھا۔ شکیل بیگ نے کہا، ’’آخری اطلاعات تک یہ عسکریت پسند ابھی اس بنکر کے اندر تھے اور اس بنکر کو بھارتی دستے اپنے گھیرے میں لے چکے تھے۔ اطراف کی ایک دوسرے پر فائرنگ جاری ہے۔‘‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلح عسکریت پسند 1989ء سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 25 برسوں کے دوران کشمیر میں علیحدگی پسندی کی اس لہر کے دوران اب تک ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
جموں کشمیر کی منقسم ریاست میں ہی پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ ہفتوں کے دوران خونریز سرحدی جھڑپوں اور فائرنگ کے بھی کئی واقعات دیکھنے میں آئے تھے، جن میں دونوں طرف مجموعی طور پر 20 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ سرحدی جھڑپیں دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین گزشتہ ایک عشرے سے بھی زائد عرصے کے دوران ہونے والی طویل ترین اور سب سے ہلاکت خیز جھڑپیں تھیں۔