1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: کسانوں کی خودکُشیوں کا سلسلہ جاری

جاوید اختر، نئی دہلی22 دسمبر 2014

بھارت میں قرض کے بوجھ تلے دبے کسانوں کی خودکشیوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کا سخت نوٹس لیا ہے۔ اندازوں کے مطابق بھارت میں روزانہ اوسطاﹰ چار کسان خودکشی کرتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E8f5
Indien Reisfeld
تصویر: T.Mustafa/AFP/Getty Images

بھارت کی سب سے خوش حال ریاستوں میں سے ایک مہاراشٹر ہے، جہاں گزشتہ دنوں قرض کے بوجھ تلے دبے ایک پچھتر سالہ کسان کی خودسوزی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ نے کسانوں کی خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔ اس دوران حکومت نے پارلیمان کو بتایا کہ اس برس اب تک تقریباﹰ تین سو کسان خودکشیاں کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ میں دائر مفاد عامہ کی ایک درخواست (پی آئی ایل) میں کہا گیا ہے کہ ملک میں ہر روز اوسطاﹰ چار کسان خودکشی کررہے ہیں اور رواں سال ان کی مجموعی تعداد 1022 تک پہنچ جانے کا خدشہ ہے۔

سرکاری ادارے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ کے مطابق صرف مہاراشٹر میں گزشتہ برس 3146 کسانوں نے خودکشیاں کی تھیں، جس کے ساتھ ہی اس مغربی ریاست میں 1995ء کے بعد سے خودکشیاں کرنے والوں کی تعداد بڑھ کر تقریباﹰ اکسٹھ ہزار ہوگئی ہے۔ مہاراشٹر میں 2004ء سے 2013ء کے دوران ہر سال اوسطاﹰ 3685 کسانوں نے خودکشیاں کی۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں 1995ء سے اب تک دو لاکھ 96ہزار 438کسان خودکشیاں کر چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف خشک سالی یا سیلاب کی تباہ کاری کی وجہ سے ہی پریشان حال کسان خودکشی نہیں کرتے بلکہ وہ قرض کے جال میں اس طرح پھنس جاتے ہیں کہ اس سے نکلنے کی ساری امیدیں کھودیتے ہیں اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ انہیں دکھائی نہیں دیتا۔ سابقہ یوپی اے حکومت نے کسانوں کے قرض معاف کرنے کے علاوہ ان کی فلاح وبہبود کے لیے مہاتما گاندھی دیہی روزگار گارنٹی قانون(منریگا) کے تحت 2005ء میں ایک اسکیم شروع کی تھی۔ دنیا کی اس سب سے بڑی فلاحی اسکیم کے تحت دیہی علاقوں میں رہنے والے غریب اور بے ہنر افراد کو 100 دنوں کی روزگار کی ضمانت دی گئی ہے۔ تاہم نریندر مودی حکومت نے اس اسکیم میں ترمیم کرکے اسے بعض علاقوں تک محدود کر دینے کا عندیہ دیا ہے، جس کی اپوزیشن سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی نے سخت مذمت کی ہے۔

منصوبہ بندی کمیشن کی سابق رکن سیدہ سیدین حامد نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ غریبوں کی جتنی اسکیمیں ہیں اگر اس میں کمی کی گئی، مثلاﹰ مہاتما گاندھی دیہی روزگار ضمانت اسکیم ، جس سے لوگوں کو سو دنوں کا روزگار ملتا تھا، اگر وہ نہیں ملے گا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کس قدر ایک طوفان آجائے گا۔ کیوں کہ منریگا سے بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں پیسہ پہنچتا تھا اور لوگوں نے اپنی زندگیاں بھی بنائی ہیں۔ اگر اسے ٹارگٹ کر کے صرف چند ریاستوں کو دیا جائے گا اور بعض ریاستوں کو نہیں دیا جائے گا تو یہ مناسب نہیں ہوگا۔ ہماری تو کوشش یہ تھی کہ اس کا فائدہ سب کو پہنچے۔‘‘

دریں اثنا حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ عوام کے فلاح و بہبود کے لیے اپنے عہد کی پابند ہے اورکسی بھی منصوبے کو نافذ کرنے یا اس میں ترمیم کرنے سے قبل اس کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے گا۔