1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: غریبوں کے لیے ’عطائی دندان ساز ایک نعمت‘

امتیاز احمد22 مئی 2015

شور کرتی اور دھواں اڑاتی بسوں اور اردگرد کھڑے تماشائیوں سے بے نیاز اللہ بخش ایک مریض کے منہ میں ہاتھ ڈال کر ایک چمکتی ہوئی نقلی بتیسی لگانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کی قیمت صرف آٹھ سو بھارتی روپے ہے۔

https://p.dw.com/p/1FUCA
Indien Reportage Straßen-Zahnärzte
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

بنگلور کی ایک سڑک کے کنارے اللہ بخش نے اپنی ’دندان سازی کی دکان‘ کھول رکھی ہے، جس میں فقط ایک کرسی ہے، پلاسٹک کے فریم والا ایک آئینہ ہے جبکہ شیشے کی ایک چھوٹی سے الماری ہے، جس میں متعدد دانت اور نقلی بتیسیاں رکھی ہوئی ہیں۔ آج کے بھارت میں سڑکوں کے کنارے اللہ بخش کی طرح کے ہزاروں دندان ساز اپنی دکانیں سجائے بیٹھے ہیں، ان کے پاس نہ تو کوئی لائسنس ہے اور نہ ہی کوئی ڈگری۔

دوسری جانب یہی دندان ساز ہیں، جو بھارت کے ان لاکھوں غرباء کو سروس فراہم کر رہے ہیں، جو مہنگے ہسپتالوں میں علاج کروانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ چوّن سالہ اللہ بخش کا اس بارے میں کہنا ہے، ’’اس ملک میں کروڑوں ایسے غریب ہیں، جو کوئی مہنگا علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے۔ لیکن انہیں بھی علاج کروانے اور خوبصورت لگنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔‘‘ اللہ بخش کے مطابق اس کی طرح کے دندان ساز غریب بھارتی شہریوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہیں۔

Indien Reportage Straßen-Zahnärzte
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

اللہ بخش نے دندان سازی کی تربیت کسی اسکول کی بجائے اپنے والد سے حاصل کی تھی، جو انیس سو چوراسی میں بنگلور آئے تھے۔ اللہ بخش کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے کام کا آغاز چودہ برس پہلے اپنے چھوٹے بھائی کے ہمراہ ایک بس اسٹینڈ کے سامنے دکان لگاتے ہوئے کیا تھا اور وہ روزانہ تقریباﹰ بیس مریضوں کا علاج کر لیتے تھے۔

اللہ بخش ایک نقلی بتیسی کی قیمت آٹھ سو بھارتی روپے وصول کرتا ہے اور اسے فٹ کرتے ہوئے اسے کم از کم تیس منٹ درکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک نقلی دانت کی قیمت پچاس بھارتی روپے ہے۔ دندان سازی کے لیے استعمال ہونے والے اوزار پانی اور صابن سے دھوئے جاتے ہیں لیکن یہ جراثیم کش نہیں ہوتے۔ اللہ بخش کے پاس یر قسم کے چھوٹے بڑے دانت رکھے ہوئے ہیں اور یہ بھارت اور چین میں تیار کیے جاتے ہیں۔

Indien Reportage Straßen-Zahnärzte
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

بھارت نے سن 1948ء میں ایک قانون منظور کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ صرف قانونی اجازت نامہ رکھنے والے دندان ساز ہی مریضوں کا علاج کر سکتے ہیں لیکن اس قانونی بل کے الفاظ اس قدر مبہم ہیں کہ غیر رجسٹرڈ دندان ساز بھی یہ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب نئی دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں میں عطائی دندان سازوں کی تعداد میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ وہ تشہیری مہمات ہیں، جو ایڈز اور دیگر بیماریوں کے حوالے سے چلائی گئی تھیں۔ یاد رہے کہ متعدد بیماریاں عطائی دندان سازوں کے آلات کی وجہ سے دوسرے انسانوں تک منتقل ہو جاتی ہیں کیونکہ دندان ساز اِن اوزاروں کو بار بار استعمال کرتے ہیں اور ان کو جراثیم کُش ادویات سے دھویا بھی نہیں جاتا۔ اس کے علاوہ ان بڑے شہروں میں بسنے والوں کی آمدنی کے ساتھ ساتھ وہاں تعلیم یافتہ دندان سازوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

ترقی کی راہ پر گامزن بھارت کے بڑے شہروں کے برعکس چھوٹے شہروں اور قصبوں میں عطائی دندان سازوں کی بھرمار ہے۔ بھارتی ڈینٹل ایسوسی ایشن کی ایک نجی تنظیم کے سیکرٹری جنرل اشوک ڈھوبلے کا کہنا تھا، ’’عطائی دندان ساز ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ دانتوں کے ڈاکٹروں یا دانتوں کی صنعت کے معاملے میں بھارت ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، یہاں تک کہ حکومت کو یہ تک نہیں پتہ کہ ملک میں تعلیم یافتہ دانتوں کے ڈاکٹروں کی تعداد کتنی ہے۔‘‘

Indien Reportage Straßen-Zahnärzte
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran

اشوک ڈھوبلے کہتے ہیں کہ بھارت میں سالانہ تیس ہزار نوجوان دندان سازی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود شہروں میں دس ہزار افراد کو محض ایک ڈینٹل ڈاکٹر میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں تقریباﹰ دو لاکھ پچاس ہزار افراد کے لیے ایک ڈینٹل ڈاکٹر ہے۔ دوسرے لفظوں میں تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کا خلا عطائی ڈاکٹر پُر کر رہے ہیں۔ اگر حکومت واقعی عطائی دندان سازوں کا خاتمہ چاہتی ہے تو نہ صرف تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کی تعداد میں اضافہ کرنا ہو گا بلکہ سستے علاج کی سہولیات بھی فراہم کرنا ہوں گی، تاکہ غریب عوام عطائی دندان سازوں کی بجائے تعلیم یافتہ ڈاکٹروں کے پاس جائیں۔