1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: سپریم کورٹ نے خواجہ سراؤں کو تیسری جنس تسلیم کر لیا

امتیاز احمد15 اپریل 2014

بھارتی سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کا درجہ دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ اب تمام سرکاری دستاویزات میں جنس کے خانے میں تیسری جنس لکھا جا سکے گا۔

https://p.dw.com/p/1BiMH
تصویر: Anna Zieminski/AFP/Getty Images

انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کا خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے ان لاکھوں لوگوں کو شناخت ملے گی، جنہیں قدامت پسند بھارتی معاشرے میں امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔

سپریم کورٹ نے وفاقی اور ریاستی حکومتوں کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ غریب عوام کے لئے شروع کیے گئے فلاح و بہبود کے تمام پروگراموں میں خواجہ سراؤں کو شامل کیا جائے اور انہیں مساوی حقوق دیے جائیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق اسی طرح صحت، تعلیم اور روزگار کے شعبوں میں پائے جانے والے سماجی اور اقتصادی چیلنجز سے نمٹا جا سکتا ہے۔

Indien Transgender Aktivist Laxmi Narayan Tripathi Archiv 2013
خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل لکشمی ترپاٹھی کا کہنا تھا، ’’آج کا یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بہت بڑی مدد ہے۔ آج مجھے ایک بھارتی ہونے پر فخر ہے۔‘‘تصویر: picture-alliance/dpa

آج کے فیصلے سے پہلے تک سرکاری دستاویزات میں تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے تمام خواجہ سراؤں کو اپنی جنس یا تو مرد یا پھر عورت کے طور پر ظاہر کرنا پڑتی تھی۔ سپریم کورٹ کے جسٹس کے ایس رادھا کرشن کا حکم سناتے ہوئے کہنا تھا کہ خواجہ سراؤں کو تیسری جنس کا درجہ دینا معاشرتی یا طبی معاملہ نہیں بلکہ اس کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے۔ عدالت کے مطابق ہر انسان کو مرد، عورت یا پھر اپنی شناخت تیسری جنس کے طور پر ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے، ’’آج کے بعد تمام دستاویزات میں تیسری جنس کا خانہ رکھا جائے گا۔‘‘

خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے سرگرم عمل لکشمی ترپاٹھی کا کہنا تھا، ’’آج کا یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بہت بڑی مدد ہے۔ آج مجھے ایک بھارتی ہونے پر فخر ہے۔‘‘

عدالت کے حکم نامے میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ آئین کا مقصد بھارتی شہریوں کو ذات، مذہب یا جنس سے قطع نظر مساوی مواقع فراہم کرنا ہے۔ حال ہی میں بھارتی الیکشن کمیشن نے ووٹر رجسٹریشن فارم میں پہلی مرتبہ خواجہ سراؤں کے لیے مرد یا عورت کی بجائے ’دوسری جنس‘ کا خانہ متعارف کروایا تھا۔ بھارت میں جاری پارلیمانی انتخابات میں تقریبا 28 ہزار افراد نے ’دوسری جنس‘ کے خانے میں نشان لگایا ہے۔

بھارت میں خواجہ سراؤں یا ہیجڑوں کی مجموعی آبادی سے متعلق کوئی سرکاری یا قابل اعتماد غیر سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں تاہم اندازوں کے مطابق بھارت میں خواجہ سراؤں کی مجموعی تعداد سات لاکھ اور ایک ملین کے درمیان ہے۔ ان کی اپنی ایک ملکی تنظیم بھی ہے، جس کا نام خواجہ سراؤں کی آل انڈیا ویلفیئر ایسوسی ایشن ہے۔

دیگر جنوبی ایشیائی معاشروں کی طرح بھارت میں بھی خواجہ سرا معاشرے کے مرکزی دھارے سے بہت دور ہیں۔ وہ زیادہ تر شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے موقع پر ناچ گانے سے ملنے والی رقم پر اپنا گزارہ کرتے ہیں۔ بہت سے واقعات میں وہ بھیک مانگنے یا پھر جسم فروشی پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔