1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بچوں کے لیے میڈیا کا فقدان‘، شرمین عبید

روما راجپال ⁄ شامل شمس15 جولائی 2014

آسکر ایوارڈ یافتہ پاکستانی فلم ساز شرمین عبید چینوئے پاکستان کی پہلی کارٹون فلم بنا رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا یہ پراجیکٹ ملک کے نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے ہے۔

https://p.dw.com/p/1CcwT
تصویر: SOC Films

چھتیس سالہ چینوئے کو سن دو ہزار بارہ میں ڈاکومینٹری فلم ’’سیونگ فیس‘‘ پر آسکر انعام دیا گیا تھا۔ یہ فلم ان خواتین کی زندگیوں کے بارے میں تھی جن کے منہ پر تیزاب پھینک دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار دس میں ان کی طالبان کے بارے میں فلم کو ایمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔

اب چینوئے بچوں کے لیے ’’تین بہادر‘‘ نام کی ایک اینیمیٹڈ فلم بنا رہی ہیں۔

ڈی ڈبلیو: اپنی نئی فلم، تین بہادر کے بارے میں کچھ بتائیے؟

شرمین عبید چینوئے: ’’تین بہادر‘‘ ایک پاکستانی کہانی ہے جس میں ہیروز، ولن، ٹھگ، زندگی میں فتوحات اور ناکامیوں کے لمحات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کہانی کا مزکر ایک فرضی پاکستانی شہر کو بنایا گیا ہے۔ گیارہ سالہ آمنہ، سعدی اور کامل اپنی برادری کو بچانے نکلتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو کئی برائیوں نے گھیر رکھا ہے۔

Sharmeen Obaid Chinoy Regisseurin von Three Braves/Teen Bahadur
شرمین عبید چینوئےتصویر: SOC Films

یہ فلم ایک فکشن ہے، اور آپ کے پچھلے کاموں سے مختلف ہے۔ اس میڈیم کا انتخاب آپ نے کیوں کیا؟

میں بہت عرصے سے بچوں کے لیے کچھ کام کرنا چاہتی تھی۔ ہم نے بہ حیثیت قوم بچوں کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے۔ بچے ہمارے معاشرے کا سب سے اہم حصہ ہیں، اور انہیں مقامی ہیروز کی ضرورت ہے۔ ہم نے کافی میڈیمز پر غور کیا تاہم ہم اینیمیشن پر اس لیے متفق ہوئے کہ یہ ہمیں اس طرح کے کام کے لیے بہت آزادی دیتا ہے۔

آپ اس فلم کے ذریعے کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟

بظاہر تو یہ فلم سپر ہیروز اور مافوق الفطرت کرداروں کے بارے میں ہے لیکن یہ کہانی ہے جدوجہد کی۔

یہ کام آپ کے لیے کتنا مختلف رہا؟

میں اس کام کو شروع کرنے سے پہلے خاصی پریشان تھی۔ ڈاکومینٹری فلم اپنے متن اور تکنیک کے حوالے سے بالکل مختلف چیز ہے۔

بچوں کے لیے کس نوعیت کا میڈیا پاکستان میں پایا جاتا ہے؟

پاکستان کی ایک بڑی آبادی بچوں اور نوجوانوں پر مشتمل ہے، مگر پاکستان کی میڈیا انڈسٹری صرف بڑوں کے لیے ہی کام کرتی ہے۔ بچوں کے لیے جو چیزیں پاکستان میں دیکھی جاتی ہیں وہ زیادہ تر باہر سے آتی ہیں، جس کی وجہ سے ہمارے بچوں کے رول ماڈلز اور ہیرو کبھی بھی ان کی اپنی ثقافت سے نہیں ہوتے۔ میں چاہتی تھی کہ ایک ایسی ہلکی پھلکی چیز تیار کروں جو کہ کوالٹی کے اعتبار سے اچھی ہو اور اس کے کردار اسی طرح دکھیں اور بولیں جیسا کہ ہمارے بچے دکھتے اور بولتے ہیں۔