بِگ بینگ، زیادہ تر امریکی بھی شبہات کا شکار
23 اپریل 2014یہ بات ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک سروے سے معلوم ہوئی ہے۔ سائنسی طرز کے سوالات کی بجائے اس سروے میں لوگوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ سائنس اور طب کے شعبوں کے حوالے سے مختلف بیانات پر اپنے یقین کی درجہ بندی کریں۔
بعض معاملات پر تو شک وشبہ نہ ہونے کے برابر ہے مثلاﹰ صرف چار فیصد لوگوں نے اس بیان پر شک کا اظہار کیا کہ سگریٹ نوشی کینسر کا سبب بنتی ہے۔ چھ فیصد کو اس بات پر شبہ تھا کہ ذہنی بیماری دراصل ایک طبی مسئلہ ہے جو دماغ کو متاثر کرتا ہے جبکہ صرف آٹھ فیصد لوگ اس بات کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں کہ خلیے یا سیل کے اندر ڈی این کی صورت میں ایک ناقابل یقین کوڈ موجود ہوتا ہے۔
تاہم بچپن میں لگائے جانے والے خطرناک بیماریوں سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکوں کے مؤثر ہونے کے بارے میں 15 فیصد لوگوں میں شک پایا جاتا ہے۔
ہر 10 میں سے قریب چار افراد اس بات پر پختہ یقین نہیں رکھتے یا سرے سے ہی یقین نہیں رکھتے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور اس کی بڑی وجہ انسانوں کی طرف سے خارج کی جانے والی فضا کے لیے خطرناک گیسیں ہیں۔
اسی طرح قریب 40 فیصد افراد اس بات پر بھی یقین نہیں رکھتے کہ ہماری زمین 4.5 ارب سال پہلے وجود میں آئی تھی اور یہ کہ اس پر پائی جانے والی زندگی دراصل ایک ارتقائی عمل کے بعد اپنی موجودہ شکل تک پہنچی ہے۔ تاہم 51 فیصد لوگ بِگ بینگ تھیوری کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔
یہ نتائج امریکا کے صف اول کے بعض سائنسدانوں کے لیے پریشانی کا سبب بنے ہیں، جن میں نوبل انعام حاصل کرنے والے بعض سائنسدان بھی شامل ہیں۔ ان سائنسدانوں کے مطابق یہ تمام نظریات ایک طرح سے تسلیم شدہ سائنسی حقائق ہیں۔
2013ء کا نوبل انعام برائے طب حاصل کرنے والے رینڈی شیک مین Randy Schekman کے مطابق، ’’ہمارے معاشرے میں سائنس کے بارے میں بے خبری بڑھتی جا رہی ہے اور اس طرح کے رویوں کو اس وقت شہ ملتی ہے جب ہمارے رہنما کُھلے عام ان حقائق کے خلاف بات کرتے ہیں جو تسلیم شدہ حقائق ہیں۔‘‘