1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بُرکینا فاسو کے صدر مستعفی ہوں‘، عوام کا مطالبہ

Claus Stäcker / امجد علی31 اکتوبر 2014

مغربی افریقی ریاست بُرکینا فاسو میں فوج کی جانب سے پارلیمان کی تحلیل اور ایک عبوری حکومت کے اعلان کے بعد جمعے کو بھی سینکڑوں مظاہرین دارالحکومت واگاڈوگُو کی سڑکوں پر نکلے اور صدر بلیس کومپاؤرے کے استعفے کا مطالبہ کیا۔

https://p.dw.com/p/1Df1f
تصویر: Reuters/Joe Penney

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کلاؤس اشٹیکر کے مطابق گزشتہ کئی روز سے جاری یہ مظاہرے پورے افریقہ کے حکمرانوں کے لیے ایک تنبیہہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں:’’سابقہ فرانسیسی نو آبادی بُرکینافاسو کے صدر کمپاؤرے خود بھی 1987ء میں ایک بغاوت کے نتیجے میں برسرِاقتدار آئے تھے۔ اُنہوں نے ملکی سرحدوں سے باہر بھی مقبول رہنما تھامس سنکارا سے اقتدار چھینا تھا، جنہوں نے اپنی سادگی اور انقلابی سوچ کی وجہ سے عوام کے دل بھی جیت لیے تھے۔

جب سنکارا اور ’غدار‘ قرار دیے جانے والے دیگر افراد کو ہلاک کر دیا گیا تو کمپاؤرے نام نہاد ’جمہوری عوامی انقلاب‘ کے حقیقی محافظ بن بیٹھے۔ تاہم اپنے اقتدار کے ستائیس برسوں میں وہ ہمیشہ ایک بدگمان آمر حکمران رہے گو ایک عشرے کی فوجی حکومت کے بعد اُنہوں نے سیاسی جماعتوں اور مختلف ذرائع ابلاغ کو کام کرنے کی اجازت دے دی تھی۔

بُرکینا فاسو کے صدر بلیس کومپاؤرے
بُرکینا فاسو کے صدر بلیس کومپاؤرےتصویر: AFP/Getty Images/Sia Kambou

سن 2000ء میں کمپاؤرے نے اقتدار پر جمے رہنے کے لیے آئین میں پہلی مرتبہ ترمیم کروائی جبکہ بار بار منظم کیے جانے والے سیاسی اور سماجی مظاہروں کو اُنہوں نے بے رحمی سے کچل دیا۔ گزشتہ سال سے وہ سربراہِ مملکت کے ساتھ ساتھ ملک کے وزیر دفاع بھی بن گئے تھے۔ اب وہ مزید دو آئینی مدتوں کے لیے ملک کا صدر بننے کے لیے آئین میں پھر سے ترمیم کرنا چاہتے تھے تاہم اُن کی یہ کوشش ناکام ہو گئی ہے۔

بُرکینا فاسو میں ہونے والے ہنگاموں میں امید کی ایک کرن بھی موجود ہے۔ یہ ہنگامے اس امر کو واضح کرتے ہیں کہ بلیس کومپاؤرے کا دَور اب لَد چکا ہے۔ افریقہ بھر میں مسلسل اقتدار سے چمٹے ہوئے بزرگ سیاستدانوں کا زمانہ اب ختم ہو چکا ہے۔ اب عوام کومپاؤرے جیسے مسلسل برسرِاقتدار رہتے چلے آ رہے حکمرانوں کے خلاف مزاحمت کرنے لگے ہیں، ضرورت پڑنے پر طاقت اور تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بھی۔

اب ایسے افریقی ملکوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جہاں صدور انتخابات میں ہارنے یا پھر دو آئینی مدتوں کے بعد آئینی ضوابط کے عین مطابق اپنے عہدے چھوڑ دیتے ہیں۔ بینین بُرکینا فاسو سے بھی چھوٹا ایک افریقی ملک ہے، جہاں میتھیو کیریکُو نے انتخابات میں شکست اٹھانے کے بعد اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے ایک مثال قائم کی۔ زیمبیا میں یہی راستہ کینیتھ کوانڈا نے اختیار کیا۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کلاؤس اشٹیکر
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کلاؤس اشٹیکرتصویر: DW

موزمبیق میں اب تک دو صدور اپنی اپنی آئینی مدتوں کے بعد اپنے عہدے چھوڑ چکے ہیں۔ گھانا میں بغاوت کے ذریعے برسرِاقتدار آنے والے جَیری رالنگز نے جمہوری عمل کی راہ ہموار کی ہے۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا نے ایک ہی آئینی مدت پر اکتفا کیا جبکہ اُن کے جانشین تھابو ایم بیکی بھی زیادہ عرصہ اقتدار میں نہیں رہے۔ اب وہاں جیکب زُوما صدر ہیں لیکن اُن میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ آئین میں ترمیم کا سوچیں بھی۔

براعظم افریقہ کے شہری اب اپنے ساتھ زیادتیوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اُن کی اکثریت ایسے نوجوان اور خود اعتماد انسانوں پر مشتمل ہے، جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی وساطت سے دنیا کے بارے میں ساری خبریں رکھتی ہے۔ زمبابوے کے نوّے سالہ رابرٹ موگابے ہوں، کیمرون کے اکیاسی سالہ پال بِیا ہوں یا پھر انگولا کے بہتّر سالہ خوسے ایڈوآرڈو دوس سانتوس، اب اِن کا زمانہ جانے والا ہے۔

اس ساری صورتِ حال کے باوجود کچھ افریقی رہنماؤں مثلاً کانگو کے جوزف کابیلا کو شاید اب بھی بدلتے ہوئے حالات کا اِدراک نہیں ہو سکا ہے۔ کابیلا 2001ء سے اقتدار میں ہیں اور 2016ء میں اُن کا دورِ حکمرانی حتمی طور پر ختم ہو جانا چاہیے تاہم اس کے باوجود اُن کے حلیف آئینی ترمیم کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ بُورُنڈی میں صدر پیئر این کُورُنسیسا تیسری آئینی مدت کے لیے کوشاں ہیں حالانکہ 2019ء میں اُن کے اقتدار کو چَودہ سال ہو جائیں گے۔ اس طرح کے لوگ آگ سے کھیل رہے ہیں کیونکہ افریقہ اب بدل چکا ہے۔ بُرکینا فاسو کے کمپاؤرے فوج کو تو شاید ایک بار پھر اپنے پیچھے لگا لیں لیکن عوام کی تائید اُنہیں حاصل نہیں ہو سکے گی۔‘‘