بوکو حرام کے ساتھ معاہدہ تاحال ’غیرواضح‘
21 اکتوبر 2014نائجیریا میں مختلف مکاتبِ فکر کے بزرگوں کے ایک انتہائی اہم گروہ بورنو ایلڈرز فورم نے یہ کہتے ہوئے سیز فائر پر شبہ ظاہر کیا ہے کہ شاید حکومت نے بوکو حرام کے ایک دھڑے سے یہ معاہدہ کیا ہو۔
اس فورم کے مطابق حالیہ دِنوں میں ہونے والے حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ جمعے کو جس معاہدے کا اعلان کیا گیا تھا، بوکوحرام کے سارے شدت پسند اس سے آگاہ نہیں تھے۔
بوکو حرام نے نائجیریا میں اپریل میں دو سو سے زائد طالبات کو اغوا کر لیا تھا جن میں سے بیشتر مسیحی تھیں۔ یہ گروہ برسوں سے قتل و غارت، اغوا اور بم دھماکوں کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اس گروہ نے نائجیریا کے دُور دراز شمالی علاقے میں متعدد دیہات اور قصبوں پر قبضہ کر کے انہیں ’مسلم علاقے‘ قرار دے دیا تھا جس کے بعد فوج نے ان کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی تھیں۔
فوج اور شہریوں پر حملوں کے نتیجے میں یہ گروہ گزشتہ پانچ برس کے دوران ہزاروں افراد کو ہلاک کر چکا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بورنو ایلڈرز فورم کے ترجمان بلاما مالی گوبیو کا کہنا ہے: ’’اگر وہ اس بات سے آگاہ ہیں اور اس بات پر متفق ہے کہ سیزفائر طے پا چکا ہے، تو میں نہیں سمجھتا ہے کہ وہ معصوم لوگوں پر حملے اور علاقوں پر قبضے کی کارروائیاں جاری رکھیں گے۔‘‘
انہوں کہا کہ اگر حکومت کو یہ نہیں پتہ کہ اصلی بوکو حرام کون ہے تو وہ ان سے رجوع کرے اور ان کا فورم حکام کو بتائے گا۔
اُدھر پیر کو امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ نائجیریا اور بوکو حرام کے درمیان سیزفائر کا معاہدہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔ تاہم بھی کہا گیا کہ تقریباﹰ دو سو مغوی طالبات کی رہائی کے لیے بات چیت ابھی جاری ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان میری ہیرف نے کہا ہے: ’’ہم ان رپورٹوں کی تصدیق کر سکتے ہیں کہ سیزفائر کا اعلان کیا گیا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ اس پر عملدرآمد ہوا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا: ’’ہم اس سیزفائر کا خیرمقدم کریں گے، اور فریقین پر زور دیں گے کہ وہ اس فائربندی کو نافذ کریں اور اسے برقرار رکھیں، اور ہم یہ اُمید بھی کریں گے کہ اس فائر بندی کے نتیجے میں ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں امن بحال ہو گا۔‘‘