بون: ماحولیاتی تبديلی کے موضوع پر مذاکرات بے نتيجہ
26 اکتوبر 2014موسمياتی تبديليوں کے موضوع پر سابقہ مغربی جرمنی کے دارالحکومت بون ميں منعقد ہونے والا اعلی سطحی اجلاس اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ کئی ملکوں کے اعلیٰ عہدیداروں کے اس اجلاس کا مقصد بر اعظم جنوبی امريکا کے ملک پيرو کے دارالحکومت ليما ميں يکم تا بارہ دسمبر ہونے والے وزارتی سطح کے سالانہ مذاکرات کے ليے بنيادی کام مکمل کرنا تھا۔ آئندہ مہينے ليما ميں ہونے والے اجلاس ميں زمين پر موسمياتی تبديليوں کے منفی اثرات کو روکنے کے ليے ايک تاريخی معاہدے پر اتفاق رائے لازمی ہے، جس پر رياستيں 2015ء کے دوران فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں ہر حال میں دستخط کیے جانا ہیں۔
تاہم بون ميں مذاکرات کے اختتام پر چند مبصرين اور شرکاء کی جانب سے اس حوالے سے تشويش کا اظہار کيا گيا کہ بات چيت ميں زيادہ تر اہميت موسمياتی تبديليوں کے ليے ذمہ داری کی شراکت پر مختلف ملکوں کے پہلے سے معلوم شدہ موقف ہی کو حاصل رہی۔ ماحوليات سے متعلق ايک تھنک ٹينک ورلڈ ریسورس انسٹيٹيوٹ سے وابستہ ايک ماہر ڈيوڈ واسکو نے نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ گرچہ بات چيت کا ماحول تعميری رہا البتہ سست روی کے سبب کچھ گھبراہٹ پائی جاتی ہے۔
در اصل ان مذاکرات ميں ايسی معلومات کی دستيابی کے حوالے سے پيش رفت ہونا تھی کہ ’گرين ہاؤس گيسز‘ يا سبز مکانی گيسوں کے اخراج کو گھٹانے کے ليے جب آئندہ برس مختلف ممالک اپنی اپنی حدود کا اعلان کريں گے، تو وہ کس حد تک ہوں گی اور ان میں کون کون سی گيسوں کے اخراج کو کم کرنے کے ليے اقدامات کے اعلانات کیے جائیں گے۔
يہ امر اہم ہے کہ سن 2015 ميں جس معاہدے پر دستخط کيے جائيں گے، اس پر عمل در آمد 2020ء سے شروع ہو گا۔ يہ معاہدہ پہلی مرتبہ امير و غريب ممالک کو ايک قانونی سطح پر دنيا کے ماحول کے تحفظ کے ليے پابند کر دے گا۔ معاہدے کے ذريعے گلوبل وارمنگ يا زمين کے درجہ حرارت ميں اضافے کو بھی دو ڈگری سينی گريڈ تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو کہ اٹھارويں اور انيسويں صدی کے درميان آنے والے صنعتی انقلاب سے قبل کے دور کی سطح ہے۔ تاہم مختلف ممالک ميں اس حوالے سے اب بھی اختلافات پائے جاتے ہيں کہ کيا ترقی يافتہ يا امير ممالک اور غريب ممالک کی ذمہ داريوں ميں تفريق ہو گی اور آيا ملکوں کی طرف سے قومی سطح پر کاربن کے اخراج ميں کمی کے وعدے زمين کے درجہ حرارت ميں اضافے کو دو ڈگری سينی گريڈ تک محدود کرنے کے ليے کافی ثابت ہوں گے۔
واضح رہے کہ سائنسدان متنبہ کرتے ہيں کہ گلوبل وارمنگ کی موجودہ سطح اگر برقرار رہی تو زمين پر درجہ حرات مقرر کردہ ہدف سے دو گنا بڑھ سکتا ہے اور يہ ممکنہ پيش رفت موسميات اور ماحوليات کو تباہ کن نقصانات پہنچا سکتی ہے۔