بون: ایک دن پاکستان کے نام اور مشاعرہ
19 اپریل 2015جرمنی میں ’فرینڈز آف پاکستان‘ اور ’اردو سوسائٹی فار یورپ‘ کے اشتراک سے اس ایک روزہ تقریب میں ایک طرف تو پاکستانی ثقافت کے مختلف رنگ سامنے لائے گئے جب کہ دوسری جانب بچوں نے بہت سے ٹیبلوز اور قومی گیتوں سے اس تقریب کو مرصع کیا۔
تقریب میں پاکستانی قونصل جنرل امتیاز قاضی تقریباﹰ تمام وقت موجود رہے۔ تقریب کے اختتام پر جرمنی بھر سے آنے والے شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔
اس مشاعرے کی صدارت معروف شاعر سید اقبال حیدر نے کی، جب کہ نظامت کی ذمہ داریاں بشریٰ ملک نے انجام دیں۔
تقریب میں نوجوان شاعر مدبر آسان نے اپنے نہایت عمدہ کلام کے ذریعے سامعین سے داد بٹوری۔
حال ہی میں اٹلی سے جرمنی منتقل ہونے والی نوجوان شاعرہ شاذیہ نورعین کے اشعار نے بھی محفل گرما دی۔
مری زمین ہے کرب و بلا وہیں لے چل
مرے خدا مجھے جلدی مرے وطن سے ملا
کمی ہوتی ہے کوئی گھر کے اندر
وگرنہ کون باہر دیکھتا ہے
جرمن شہر کولون سے آئے شاعر باقر زیدی نے اپنی مترنم آواز اور خوبصورت اشعار سے محفل کا لطف دوبالا کر دیا۔
سمندر کی روانی دیکھتا ہوں
میں آفت ناگہانی دیکھتا ہوں
نظر آتی ہیں اسکی بھیگی پلکیں
پریشاں جب بھی پانی دیکھتا ہوں
فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے شاعر طاہر عدیم نے بھی اپنے منفرد انداز سے سامعین کی توجہ حاصل کی۔
ہے کیوں یزیدِ دروں کا پہرہ فراتِ دل پر
وہ کیا ہے مجھ میں جوکربلا سے جڑا ہوا ہے
کہیں یہ میرے ہی پاؤں سے تو نہیں ہے اترا
جو نقش پا میرے نقش پا سے جڑا ہوا ہے
مشاعرے کے اختتام پر صاحب صدر سید حیدر اقبال نے اپنی ایک غزل اور ایک نظم پیش کی۔ غزل کے اشعار کچھ یوں تھے:
یاد چمن میں ہوتا ہے یوں بھی کبھی کبھی
پھولوں کا کیف ڈھونڈتے ہیں خار و خس میں ہم
لگتا ہے جیسے دوڑتے پھرتے ہوں آج بھی
اقبال اپنے باغ کی ایک ایک نس میں ہم