1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: مذہبی انتہاپسندی کا مخالف قلم خاموش کر دیا گیا

عدنان اسحاق27 فروری 2015

مذہبی انتہا پسندی اور بنیادی پرستی کے خلاف سرگرم معروف بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اویجیت روئے کو ڈھاکہ میں قتل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق روئے پرکئی افراد نے ایک ساتھ حملہ کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Eidh
تصویر: Privat

ڈھاکہ پولیس کے سربراہ سراج الاسلام نے بتایا کہ اویجیت روئے کو جمعرات کی شب اُس وقت نشانہ بنایا گیا، جب وہ اپنی اہلیہ رافیدہ احمد کے ہمراہ ڈھاکہ یونیورسٹی میں منعقدہ ایک کتاب میلے سے واپس گھر جا رہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ تیز دھار چاپٹروں سے مسلح متعدد افراد نے اس جوڑے کو حملے کا نشانہ بنایا۔ رافیدہ احمد جو خود بھی ایک بلاگر ہیں، اس حملے میں شدید زخمی ہو گئیں۔

پولیس نے ابھی تک کسی بھی گروپ پر اس حملے کی ذمہ داری عائد نہیں کی اور نہ ہی کسی شخص کو مشتبہ قرار دیا گیا ہے۔ تاہم روئے کے خاندان کے افراد اور قریبی دوستوں کے مطابق اُنہیں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں متعدد مرتبہ قتل کی دھمکیاں دی جا چکی تھیں۔

سراج الاسلام نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ’’اس واردات میں کئی حملہ آور ملوث تھے اور دو نے براہ راست روئے کو نشانہ بنایا۔ جائے واردات سے خون میں لت پت دو چاپڑ ملے ہیں۔‘‘ امریکی شہریت کے حامل اویجیت روئے اپنے بلاگ ’مکتو مونا‘ یعنی’کھلا ذہن‘ کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ وہ خاص طور پر سائنسی حقائق اور مذہبی انتہاپسندی پر لکھتے تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی انوجیت روئے نے بتایا، ’’روئے اس ماہ کے آغاز میں ہی امریکا سے بنگلہ دیش آئے تھے اور مارچ میں وہ واپس جانا چاہتے تھے۔‘‘

Screenshot Facebook Profil Avijit Roy

160 ملین کی آبادی والے ملک بنگلہ دیش میں بلاگرز یا صحافیوں پر حملے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہونے والے اس طرح کے حملوں کے پیچھے مذہبی انتہاپسندوں کا ہاتھ رہا ہے۔ 2013ء میں ایک اور بلاگر احمد رجب حیدر کو ڈھاکہ کے قریب اُن کے گھر میں قتل کر دیا گیا تھا۔ وہ بھی مذہبی انتہاپسندی کے خلاف لکھتے تھے۔2004ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کے استاد اور ایک معروف ادیب ہمایوں آزاد بھی ایک حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔

اویجیت روئے کے دوست باقی بلا نے انڈیپنڈنٹ ٹیلی وژن کو بتایا، ’’وہ ایک آزاد خیال انسان تھے۔ وہ ہندو تھے۔ لیکن وہ صرف مسلم انتہاپسندی ہی کے نہیں بلکہ مذہبی شدت پسندی کے بھی خلاف تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ وہ افسردہ ہیں اور انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ حکومت قاتلوں کو تلاش کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہی ہے۔ ’’ہم انصاف چاہتے ہیں۔‘‘

اویجیت روئے کو ڈوئچے ویلے کے زیر اہتمام امسالہ بیسٹ آف بلاگز یعنی بوبز BoBs ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ ڈوئچے ویلے ہر سال یہ ایوارڈ انٹرنیٹ پر سرگرم نمایاں بلاگرز کو دیتا ہے۔