1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: ’جنگی مجرم‘ غلام اعظم کا جیل میں انتقال

عصمت جبیں24 اکتوبر 2014

بنگلہ دیش کی اسلام پسند سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے سابق رہنما غلام اعظم 91 برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب قرار دیے جانے کے بعد جیل میں سزا کاٹ رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/1Dba6
تصویر: Rayizmi Rayizmi

ڈھاکا سے موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ غلام اعظم کافی بیمار تھے اور ان کا ایک سرکاری ہسپتال میں علاج کیا جا رہا تھا۔ حکام کے مطابق چونکہ وہ ایک سزا یافتہ جنگی مجرم تھے، اس لیے ہسپتال میں جہاں ان کا علاج کیا جا رہا تھا، اس جگہ کو جیل کی حیثیت دے دی گئی تھی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے ملکی دارالحکومت ڈھاکا میں شیخ مجیب میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال کے ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ غلام اعظم کا انتقال جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہوا۔ ان کے انتقال سے پہلے انہیں لائف سپورٹ سسٹم پر رکھا جا رہا تھا۔ ان کا انتقال ہارٹ اٹیک کے نتیجے میں دل کی دھڑکن بند ہو جانے سے ہوا۔

Bangladesch Ghulam Azam Urteil 15.07.2013
غلام اعظم کو جنگی جرائم سے متعلق 61 الزامات میں 90 برس قید کی سزا سنائی گئی تھیتصویر: picture-alliance/dpa

غلام اعظم بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کہلانے والی سیاسی جماعت کے سابق رہنما تھے، جنہیں 2013ء میں ملک کی ایک خصوصی عدالت نے مجرم قرار دے دیا تھا۔ انہیں جنگی جرائم سے متعلق 61 الزامات میں 90 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ گزشتہ برس انہیں سزا سنائے جانے کے خلاف پورے ملک میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔

غلام اعظم سن 2000ء تک بنگلہ دیشی جماعت اسلامی کے رہنما تھے اور اس پارٹی کے لیڈر اور ارکان انہیں ابھی تک اپنا روحانی رہنما مانتے تھے۔ 1971ء میں جب بنگلہ دیش ابھی سابقہ مشرقی پاکستان تھا اور وہاں مغربی پاکستان سے علیحدگی کی کوششیں جاری تھیں، اس وقت مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے امیر غلام اعظم ہی تھے۔

جب بنگلہ دیش کی آزادی کی جدوجہد ایک خود مختار ریاست کے قیام پر ختم ہوئی تو ایک اسلام پسند سیاسی پارٹی کے طور پر جماعت اسلامی کی قیادت غلام اعظم ہی کے پاس رہی تھی۔ بنگلہ دیش کا الزام ہے کہ اس کی آزادی کی نو ماہ تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران پاکستانی فوج نے وہاں اپنے مقامی اتحادیوں اور مسلح گروپوں کے ساتھ مل کر مبینہ طور پر تین ملین تک انسانوں کو قتل کیا تھا اور دو لاکھ عورتوں کی آبروریزی کی گئی تھی۔

Bangladesch Proteste nach Ghulam Azam Urteil 15.07.2013
گزشتہ برس غلام اعظم کو سزا سنائے جانے کے خلاف پورے ملک میں پرتشدد احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھےتصویر: Reuters

تب غلام اعظم کی قیادت میں جماعت اسلامی نے سابقہ مشرقی پاکستان کی آزادی کی کھل کر مخالفت کی تھی اور پارٹی کے اس رہنما نے پاکستان کے لیے بیرونی حمایت حاصل کرنے کی خاطر مشرق وسطیٰ کے ملکوں کا دورہ بھی کیا تھا۔

ڈھاکا حکومت کے مطابق آزادی کی جنگ کے دوران جن جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا تھا، ان میں جماعت اسلامی کے جرائم بھی شامل تھے۔ اس کے برعکس جماعت اسلامی اپنے خلاف آزادی کی جدوجہد کے دوران کسی بھی طرح کے جرائم یا زیادتیوں کے ارتکاب کے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

اس پس منظر میں بنگلہ دیش میں ایک خصوصی ٹریبیونل نے غلام اعظم کو جنگی مجرم قرار دے دیا تھا جبکہ بہت سے حلقوں، خاص کر اپوزیشن سیاستدانوں کا الزام تھا کہ اس عدالت کا قیام، اس میں چلائے جانے والے مقدمے اور ملزمان کو سنائی جانے والی سزائیں سب سیاسی وجوہات کا نتیجہ تھے۔

غلام اعظم کی طرف سے انہیں سنائی گئی سزائے قید کے خلاف ایک اپیل بھی دائر کی گئی تھی اور ڈھاکا میں ملکی سپریم کورٹ میں اس اپیل کی سماعت دو دسمبر کو ہونا تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید