1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بنگلہ دیش: المناک واقعے کا ایک سال

Helle Jeppesen / امجد علی24 اپریل 2014

ایک سال پہلے 24 اپریل 2013ء کو بنگلہ دیش کی تاریخ کے ہولناک ترین حادثے میں دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک مضافاتی قصبے ساوار میں ایک ٹیکسٹائل فیکٹری کی کئی منزلہ عمارت منہدم ہو جانے سے گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1BnjU
جرمنی میں ’صاف ملبوسات کی تحریک‘ سے وابستہ کارکن دارالحکومت برلن میں چانسلر آفس کے سامنے اپنے اس مظاہرے کے ذریعے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کام کرنے والے مزدوروں کے لیے بہتر حالات کا مطالبہ کر رہے ہیں
جرمنی میں ’صاف ملبوسات کی تحریک‘ کے ارکان برلن میں چانسلر آفس کے سامنے اپنے اس مظاہرے کے ذریعے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے مزدوروں کے لیے بہتر حالات کا مطالبہ کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

آج ایک سال بعد ہزاروں افراد جائے حادثہ پر جمع ہوئے اور اُنہوں نے اس حادثے میں مرنے والوں کی یاد تازہ کی۔

بنگلہ دیش کے منہدم رانا پلازہ کی تصاویر دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں پھیل گئی تھیں اور ان تصاویر کے نتیجے میں پہلی مرتبہ عالمی ٹیکسٹائل انڈسٹری کا بدصورت چہرہ بھی دنیا کے سامنے آیا تھا۔

ایک بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل فیکٹری کا منظر، 24 اپریل 2013ء کو بنگلہ دیشی دارالحکومت کے مضافات میں واقع رانا پلازہ گرنے سے گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے
ایک بنگلہ دیشی ٹیکسٹائل فیکٹری کا منظر، 24 اپریل 2013ء کو ڈھاکہ کے مضافات میں واقع رانا پلازہ گرنے سے گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھےتصویر: DW/C. Meyer

یہ بات افسوس ناک بھی ہے لیکن سچی بھی ہے کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی حالتِ زار کی طرف متوجہ کرنے کے لیے ایک ایسے سانحے کی ضرورت پڑی، جس میں گیارہ سو سے زائد افراد کو جان سے جانا پڑا جبکہ سولہ سو افراد زخمی ہو گئے۔ سوال لیکن یہ ہے کہ آیا ان تصاویر پر ہونے والا شدید ردعمل محض وقتی تھا یا آئندہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے درحقیقت کوئی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہیں؟

بنگلہ دیش میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں عمارات اور آگ سے تحفظ کے معیارات طے کرنے کے حوالے سے مذاکرات تو گزشتہ کئی برسوں سے ہوتے چلے آ رہے تھے لیکن کہیں رانا پلازہ کے منہدم ہو جانے کے چند ہفتے بعد جا کر ایک باقاعدہ معاہدے کی منظوری عمل میں آئی۔ بین الاقوامی سطح پر ملبوسات تیار کرنے والی بہت سی کمپنیاں، جن میں بہت سی جرمن فرمیں بھی شامل ہیں، اس معاہدے میں شامل ہو گئیں۔ اس طرح وہ ملبوسات تیار کر کے دینے والوں کے ہاں کام کے حالات کی ذمہ داری میں بھی شریک ہو گئیں۔

چوبیس ستمبر 2013ء کو ڈھاکہ میں پریس کلب کے سامنے ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں رانا پلازہ حادثے میں مرنے اور لاپتہ ہو جانے والوں کے رشتے دار آہ و بکا کر رہے ہیں اور زرِ تلافی ادا کیے جانے کے مطالبات کر رہے ہیں
چوبیس ستمبر 2013ء کو ڈھاکہ میں پریس کلب کے سامنے ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے میں رانا پلازہ حادثے میں مرنے اور لاپتہ ہو جانے والوں کے رشتے دار آہ و بکا کر رہے ہیں اور زرِ تلافی ادا کیے جانے کے مطالبات کر رہے ہیںتصویر: Imago/Xinhua

جرمنی میں ’صاف ملبوسات کی تحریک‘ سے وابستہ فراؤکے بانزے کہتی ہیں:’’رانا پلازہ کے حادثے کے بعد ہم نے طاقتور رائے عامہ کو استعمال کیا اور بالآخر عمارات کے تحفظ اور آگ سے بچاؤ کے معیارات کے حوالے سے ایک ٹھوس اور شفاف سمجھوتہ طے کروانے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘ یہ جرمن تحریک بین الیورپی تحریک ’کلین کلودز کیمپین‘ کا ایک حصہ ہے۔

نومبر میں رانا پلازہ کے متاثرین کے لیے زرِ تلافی کا بین الاقوامی فنڈ بھی رائے عامہ کے شدید دباؤ ہی کے نتیجے میں قائم ہو پایا۔ اس فنڈ میں اُن ٹیکسٹائل کمپنیوں کو حصہ ڈالنا ہے، جو اس فیکٹری سے کپڑے تیار کرواتی تھیں۔ مطلوبہ چالیس ملین ڈالر میں سے اب تک صرف تقریباً پندرہ ملین ڈالر جمع ہو پائے ہیں۔ اس فنڈ کے سلسلے میں مذاکرات بین الاقوامی ادارہء محنت ILO کی نگرانی میں ہوئے، جو اب بین الاقوامی تعاون کی جرمن انجمن GIZ کے ساتھ مل کر اس فنڈ کا انتظام چلا رہا ہے۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں ILO کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل ژِلبیئر ہونگبو نے کہا:’’آئی ایل او میں ہمارے پاس نہ تو اختیارات ہیں اور نہ ہی ہم اس میں کوئی دلچسپی رکھتے ہیں کہ اس طرح کی تحریکوں کے ساتھ تعاون کریں۔ تاہم مجھے اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس طرح کی تحریکیں، بہت سی این جی اوز اور میڈیا متعلقہ کمپنیوں میں اس حوالے سے شعور بیدار کرنے میں بہت معاون ثابت ہوئے ہیں۔‘‘

وفاقی جرمن وزیر برائے ترقیاتی امور گیرڈ مُلر، جنہوں نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بہتر حالات پر تبادلہء خیال کے لیے تیس اپریل کو ایک گول میز کانفرنس بلا رکھی ہے
وفاقی جرمن وزیر برائے ترقیاتی امور گیرڈ مُلر، جنہوں نے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بہتر حالات پر تبادلہء خیال کے لیے تیس اپریل کو ایک گول میز کانفرنس بلا رکھی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

جرمن رائے عامہ میں اس مسئلے کے حوالے سے شعور بیدار کرنے میں میڈیا اور این جی اوز کے بھرپور کردار پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے صارفین سے متعلقہ پالیسیوں کے انسٹیٹیوٹ Conpolicy کے انچارج کرسٹیان تھورُون کہتے ہیں:’’پانچ سال پہلے تک بنگلہ دیش میں مزدوروں کے حقوق کا موضوع یہاں محض ایک ضمنی سا موضوع ہوا کرتا تھا۔ بہرحال اب ہمیں یہ پتہ چلا ہے کہ اس طرح کی سماجی تحریکیں منڈیوں کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔‘‘

وفاقی جرمن وزیر برائے ترقیاتی امور گیرڈ مُلر نے تیس اپریل کو ایک گول میز کانفرنس بلا رکھی ہے، جس میں ٹیکسٹائل انڈسٹری میں کم از کم سماجی اور ماحولیاتی معیارات پر تبادلہء خیال کیا جائے گا۔ اس میں جرمن ٹیکسٹائل انڈسٹری کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ این جی اوز کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں ایک ایسی ویب سائٹ وجود میں آ سکتی ہے، جہاں صارفین آسانی سے یہ جان سکیں گے کہ آیا کسی مخصوص لباس کی تیاری میں کم از کم معیارات کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی ضمانت دینے والی مہر کا بھی فیصلہ ہو سکتا ہے کہ آیا کسی لباس کی تیاری کے لیے معقول اجرت ادا کی گئی ہے اور تیاری کے عمل میں ماحولیاتی معیارات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

دوسری طرف این جی اوز اس طرح کے اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے باقاعدہ ایسی قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں، جس کے ذریعے امیر صنعتی ملکوں کی آرڈر دینے والی کمپنیوں کو بنگلہ دیش جیسے ترقی پذیر ملکوں میں کام کے حالات کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہو۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید