1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان میں ہیروئن کی فیکٹریاں، کاروبار زوروں پر

عبدالغنی کاکڑ، کوئٹہ26 مارچ 2015

پاکستانی صوبہٴ بلوچستان میں افغانستان اور ایرانی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں ہیروئن کی دو درجن سے زائد ایسی فیکٹریاں قائم ہیں، جہاں دنیا کی اعلیٰ اورمہنگی ترین ہیروئن تیار کی جاتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Exws
بلوچستان سے سالانہ 15 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی ہیروئن بین الاقوامی منڈیوں میں اسمگل کی جاتی ہے
بلوچستان سے سالانہ 15 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی ہیروئن بین الاقوامی منڈیوں میں اسمگل کی جاتی ہےتصویر: DW/A. G. Kakar

یہ فیکٹریاں صوبے کی شورش زدہ مکران ڈویژن کے ساتھ ساتھ تربت، مند،گوادر، چاغی اور برامچہ کےعلاقوں میں بھی قائم ہیں اور اسمگلرز وہاں تیار ہونے والی ہیروئن غیر قانونی راستوں سے بین الاقوامی مارکیٹ کو اسمگل کر رہے ہیں۔

بلوچستان میں منشیات کی روک تھام کے قومی ادارے کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبے کی جنوبی ساحلی پٹی اور اسمگلنگ کا گڑھ سمجھے جانے والی مکران ڈویژن میں متعلقہ حکام کی مبینہ غفلت کی وجہ سے منشیات کا کاروبار زور پکڑتا جا رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر اقدامات کے باوجود حکومت اس مسئلے سے نمٹنے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

بلوچستان میں افیون کی بڑی مقدار جنوبی افغانستان میں پوست کے کھیتوں سے اسمگل ہو کر آتی ہے
بلوچستان میں افیون کی بڑی مقدار جنوبی افغانستان میں پوست کے کھیتوں سے اسمگل ہو کر آتی ہےتصویر: Noorullah Shirzada/AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو سے گفتگوکرتے ہوئے انہوں نے کہا:”بلوچستان سے سالانہ 15 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کی ہیروئن بین الاقوامی منڈیوں میں اسمگل کی جاتی ہے۔ جن علاقوں میں ہیروئن کی فیکٹریاں قائم ہیں، وہاں اسمگلرز عسکریت پسندوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ حکومت مخالف ان مسلح تنظیموں کو منشیات کی اسمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی کاایک بڑا حصہ مل جاتا ہے۔ عسکریت پسند اسمگلرز سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنے لیے اسلحہ اور ضروریات کی دیگر اشیاء خریدتے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے لوگ اسمگلرز کے لیے ریکی کا کام بھی کرتے ہیں۔ اس لیے جب بھی حکومتی سطح پر ان اسمگلرزکے خلاف کارروائی ہوتی ہے، وہ وہاں سے باآسانی فرار ہو جاتے ہیں۔‘‘

انسداد منشیات کے ادارے سے وابستہ اس اہلکار نے مزید بتایا کہ بلوچستان میں قائم ہیروئن کی فیکٹریوں میں سالانہ کئی ٹن ہیروئن کی پروسیسنگ ہوتی ہے اور اس کی تیاری میں استعمال ہونے والی افیون کی سب سے زیادہ مقدار اسمگلرز افغانستان سے پاکستان اسمگل کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا:”بلوچستان میں افیون کی بڑی مقدار جنوبی افغانستان میں پوست کے کھیتوں سے اسمگل ہو کر آتی ہے۔ ہیروئن کی فیکٹریوں میں پروسیسنگ کے بعد یہ کارخانہ دار اپنی مصنوعات کے تھیلوں پر بچھو، شیر یا سانپ کی تصاویر پر مبنی اپنی مخصوص دستخطی علامات کی مہر لگاتے ہیں۔ بلوچستان کے اسمگلرز ایشیا، افریقہ، یورپ اور روس کے منشیات کے بین الاقوامی اسمگلرز کے خفیہ نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ یہ لوگ باہمی تعاون سےیہ منشیات ایک سے دوسری جگہ پہنچاتے ہیں۔‘‘

کارخانہ دار اپنی مصنوعات کے تھیلوں پر بچھو، شیر یا سانپ کی تصاویر پر مبنی اپنی مخصوص دستخطی علامات کی مہر لگاتے ہیں
کارخانہ دار اپنی مصنوعات کے تھیلوں پر بچھو، شیر یا سانپ کی تصاویر پر مبنی اپنی مخصوص دستخطی علامات کی مہر لگاتے ہیںتصویر: DW/A. G. Kakar

اینٹی نارکوٹکس فورس بلوچستان کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری اور فروری میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کارروائیوں کے دوران 3 ہزار کلو گرام سے زائد ہیرو ئن برآمد کی گئی ہے۔ اسمگلنگ کے الزامات کے تحت صوبے کے مختلف علاقوں میں 41 اسمگلروں کے خلاف عدالتوں میں چالان بھی جمع کیے گئے ہیں۔

بلوچستان میں ہیروئن کی اسمگلنگ میں امام بھیل، حاجی جمعہ خان، ستار محمد شہی، محمد یوسف میر نوتیزئی اور بعض دیگر گروپوں کے ارکان ملوث ہیں۔ ان افراد کے خلاف پاکستان سمیت دنیا کے بعض دیگر ممالک میں بھی کئی مقدمات قائم ہیں۔ 2009ء میں امریکی وائٹ ہاؤس نے بھی بلوچستان کے امام بھیل نامی اسمگلرکا نام منشیات کے مشتبہ ”سرغنوں“ کی فہرست میں شامل کیا تھا، جس کے بعد امام بھیل پر پابندیاں بھی لاگو کر دی گئی تھیں۔

واضح رہے کہ افغانستان کی سرحد سے ملحقہ ضلع چاغی کے مختلف علاقوں میں بھی ہیروئن کی متعدد فیکٹریاں قائم ہیں، جہاں سے اسمگلرز یہ ہیروئن افغانستان اور بعد میں دیگر بین الاقوامی منڈیوں کو اسمگل کرتے ہیں۔

افغانستان سے منشیات یورپ اسمگل کرنے کے لیے ایران بھی ایک اہم راستہ ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاک ایران سرحد پر پاکستانی حدود میں اسمگلروں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں ایران کی سرحدی سکیورٹی پر مامور کئی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں