1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلقان: غیرقانونی طور پر یورپ آنے والوں کا خطرناک راستہ

عاطف توقیر26 مارچ 2015

افریقہ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ سے نقل مکانی کر کے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے نئے نئے راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نیا راستہ بلقان ریاستوں کے ذریعے مغربی یورپ تک منتقل ہونا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ey0B
تصویر: Reuters/A. Bianchi

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن کا یورپ پہنچنے کے لیے یہ نیا راستہ خطرات سے پر اور افسوس ناک ہے، جس میں ان مہاجرین کو قریب ڈھائی سو کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے، جس کا عموماﹰ نتیجہ ناکامی ہی نکلتا ہے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی اس تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا کہ دس دن اور رات تک مسلسل پیدل چلتے ہوئے، ایک 45 رکنی گروہ نے جرمنی اور فرانس تک براستہ ہنگری رسائی کی کوشش کی۔ ان مہاجرین میں مغربی افریقہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

یہ افراد 27 فروری کو یونان کے شمالی شہر تیسالونیکی میں جمع ہوئے اور اس کے بعد دشوار گزار پہاڑی راستے پر پیدل سفر ان کا منتظر تھا۔

ان میں 32 مرد اور گیارہ خواتین شامل تھیں، جو مغربی افریقہ سے بہتر زندگی کے خواب اپنے آنکھوں میں سجائے یورپ کے لیے نکلے تھے۔ یونان تک پہنچنے پر ان میں سے دو خواتین کے ہاں ترکی اور یونان میں دو بچے بھی پیدا ہوئے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق مغربی یورپ تک پہنچنے کی کوشش کرنے والے زیادہ تر افراد ترکی سے یہ مہم شروع کرتے ہیں، جو اسمگلروں کو ایک ہزار یورو تک دے کر یونانی جزائر تک پہنچ کر وہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دیتے ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی بھی یونان میں نہیں رکنا چاہتا۔ یونان خود شدید مالی بحران کا شکار ہے اور وہاں ملازمتوں کے مواقع نہایت کم ہیں۔ اسی لیے ان مہاجرین کی منزل دراصل جرمنی، فرانس یا مغربی یورپ کے دوسرے ممالک ہوتے ہیں۔

Italien Flüchtlinge in Lampedusa
مختلف ممالک سے یہ افراد ایک اچھے مستقبل کے خواب لیے یورپ میں داخلے کی کوشش کرتے ہیںتصویر: Reuters/A. Bianchi

یونان سے یہ افراد شمال کی طرف ہنگری اور پھر سابقہ یوگوسلاویہ کی ریاستوں جن میں مقدونیہ قابل ذکر ہے، استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر کو ایک ایسے ہی اسمگلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس گروہ تک رسائی دی۔ اس گروہ کو بتایا گیا کہ وہ اپنے ساتھ خیمے، سونے کے لوازمات سے آراستہ بستے، ٹھند سے بچنے کے لیے مناسب کپڑے، اچھے جوتے اور بہت سے موزے رکھ لیں۔ اس اسمگلر نے اس گروپ سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں دس روز میں سربیا کی سرحد تک پہنچا دے گا۔ اس کے بدلے فی کس پانچ سو ڈالر لینے کی بات طے کی گئی۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق متعدد افراد کو درست کاغذات نہ ہونے پر شمالی یونان ہی میں پولیس کی چیکنگ کے بعد ان میں سے دو افراد کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ گیا جب کہ باقی یونانی سرحد کی جانب پیدل نکل پڑے۔

شمالی یونانی شہر پولیکاسترو سے دس گھنٹے جنگلات اور کچے راستے پر چلتے ہوئے یہ افراد نصف شب کو مقدونیہ کی سرحد پر پہنچے۔ سخت سردی اور کھلے آسمان تلے رات گزارنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہ تھا۔ تھکے ہارے ان لوگوں نے رات اور دن وہیں گزارا اور اگلی شب کا انتظار کیا، کیوں کہ یہ سرحد اندھیرے میں عبور کرنا پڑتی ہے، اس کی وجہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود وہ سرحدی پہرے دار ہوتے ہیں، جو ہر وقت اس علاقے میں ہونے والی نقل و حرکت پر نگال رکھتےہیں۔ اگلی شب ان افراد نے سرحد عبور کی اور چھوٹے چھوٹے گروپس میں دوڑتے ہوئے ایک شاہراہ کے قریب انہوں نے دس خیمے نصب کر دیے۔

پھر اگلے روز ان افراد نے 40 کلومیٹر کا پیدل سفر طے کیا اور یہ سفر صبح چار بجے بھی جاری تھا، تاہم اس گروپ میں شامل مالی سے تعلق رکھنے والی ایک 34 سالہ خاتون نے اپنی ٹانگ میں شدید تکلیف کا بتایا اور سفر روکنے کی درخواست کی، تاہم اسے کہا گیا کہ وہ چلتی رہے ورنہ اسے یہیں چھوڑ دیا جائے گا۔

شدید سردی، بارش اور پھر برف باری کے سبب اس گروہ میں شامل دس ماہ کے دونوں بچے اپنی زندگی کی جنگ لڑنے میں مصروف تھے، اس کے علاوہ آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والی ایک 41 سالہ خاتون بھی اس سفر میں مزید ساتھ نہ دے پائی اور اسے ایک قریب گاؤں میں چھوڑ دیا گیا۔ اس طرح یہ گروہ سکڑ کر صرف 42 افراد کا رہ گیا۔

چھٹی شب یہ گروہ نوگوٹینو نامی علاقے میں پہنچ گیا، تاہم اب بھی انہیں سربیا کی سرحد سے تک پہنچنے کے لیے مزید اتنا ہی فاصلہ طے کرنا تھا۔

دو روز بعد برف باری مزید شدید ہو گئی اور اس بیچ اس گروہ کے درمیان مختلف باتوں پر لڑائی جھگڑے، الزام تراشیاں باقاعدہ ہاتھی پائی اور مار کٹائی تک ہوئی۔

نویں دن کیمرون سے تععلق رکھنے والی ایک خاتون بمع دس ماہ کے بچے کے سفر مزید جاری رکھنے سے معذرت کے بعد راستے ہی میں چھوڑ دی گئی، جب کہ باقی چالیس افراد آگے بڑھنے لگے۔ پھر ان افراد نے ایک ٹرین ٹریک کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کر دیا اور تقریباﹰ 145 کلومیٹر تک کا سفر جاری تھا کہ بدقسمتی نے اس گروہ کا راستہ روک لیا گیا۔ دو پولیس اہلکاروں نے مہاجرین کے اتنے بڑھے گروہ کو دیکھ لیا، جب کہ یہ افراد ادھر ادھر فرار کی کوشش میں دوڑنے لگے۔ ان میں سے پانچ کو حراست میں لے لیا گیا، جن میں دس ماہ کی بچی بھی شامل تھی، جب کہ ایک اور خاتون نے دوڑنے کی کوشش میں گر کر اپنی ٹانگ تڑوا لی۔

اگلے روز تک اس گروہ کے 13 افراد کے علاوہ سب مقدونیہ کے حکام کی حراست میں تھے، جنہیں ٹرکوں پر دوبارہ یونان بھیجوا دیا گیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان ناکامیوں اور دشواریوں کے باوجود نہ تو مہاجرین اس سفر سے اجتناب برتنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی اسمگلر ایسے خوف ناک سفر سے پیسے بنانے سے اجتناب برتنے کو تیار۔