1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بلاٹر سسٹم‘ کا ایک متبادل نظام بھی موجود ہے، تبصرہ

یوشا ویبر/ عدنان اسحاق29 مئی 2015

فیفا کی 65 ویں کانگریس کا افتتاح ایک یادگار انداز میں ہوا جبکہ اس کا اختتام ایک تماشے پر ہو گا۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یوشا ویبر کے بقول رشوت کے نئے اسکینڈل کے باوجود موجودہ صدر سیپ بلاٹر کا دوبارہ انتخاب نا گزیر ہے۔

https://p.dw.com/p/1FYdx
تصویر: Reuters/R. Sprich

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یوشا ویبر کے مطابق جمعرات کو قبل از دوپہر فیفا کی کانگریس کا آغاز ہمیشہ کی طرح سے ہوا، جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو یا کم از کم ایسا تاثر دینے کی کوشش کی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ بدقستی سے اس کانگریس میں آج ہی سیپ بلاٹر کا دوبارہ فیفا کا صدر منتخب ہو جانا یقینی ہے۔ ان کے بقول بلاٹر ایشیائی، افریقی اور چند دیگر چھوٹے چھوٹے رکن ممالک کی حمایت سے اپنی اکثریت ثابت کر دیں گے۔ سیپ بلاٹر اپنے بدنام زمانہ پیش رو جوآؤں اویلانژی کے ساتھ مل کر مراعات دینے اور اقربا پروری کا نظام متعارف کرانے کے ذمہ دار ہیں اور اب وہ اس سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہیں۔ وہ فیفا کے ارکان کو اپنے فیملی کہتے ہیں اور ان سے خطاب کے دوران معذرت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ سب کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔ بدعنوانی کے تازہ ترین واقعات اور یورپی ممالک کی مزاحمت کے باوجود بھی بلاٹر کے ’خاندان‘ کے یہ ارکان ان کا ساتھ دیتے ہیں۔

Wahl des FIFA-Präsidenten 2011
تصویر: picture-alliance/dpa/P. B. Kraemer

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار کے بقول سوئس شہری بلاٹر کی صلاحیتوں کی تعریف کرنا پڑے گی کہ وہ 79 برس کی عمر میں بھی ساز باز کے فن پر ملکہ رکھتے ہیں۔ بلاٹر نے ابھی حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا، ’’فیفا کی ساکھ کو برباد کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘ اپنے انہی حربوں کو استعمال کرتے ہوئے وہ 2011ء میں فیفا کے صدر بننے میں کامیاب ہوئے تھے۔

یوشا ویبر مزید کہتے ہیں کہ بلاٹر اس سے پہلے بھی تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن اس مرتبہ معاملہ کچھ سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ رشوت لینے کے الزامات کی امریکا اور سوئٹزرلینڈ میں الگ الگ تحقیقات جاری ہیں اور یہ چھان بین فیفا میں تبدیلی کا ایک موقع بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ بلاٹر خود کہہ چکے ہیں کہ رشوت کے معاملے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی اور یہ ابھی ابتدا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بلاٹر اور ان کے حامی جسے بری خبر سمجھیں، وہ اصل میں فٹ بال کے لیے ایک نعمت ثابت ہو۔

آج شام ہونے والی رائے دہی کے نتیجے میں سیپ بلاٹر دوبارہ فیفا کے صدر بن جائیں گے تاہم اس کے باوجود یورپ کی جانب سے شروع کی گئی بلاٹر مخالف تحریک کو ختم نہیں ہونا چاہیے، خاص طور پر رشوت ستانی کے ان نئے الزامات کے بعد جن میں مزید شدت آ چکی ہے۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار یوشا ویبر مزید کہتے ہیں کہ بلاٹر مخالف تحریک میں فیفا سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دینے والے با اثر اسپانسرز اور بے چینی کے شکار فٹ بال مداحوں کو بھی ساتھ ملا کر یہ ثابت کیا جانا چاہیے کہ ’بلاٹر سسٹم‘ کا ایک متبادل نظام بھی موجود ہے۔ یوشا ویبر کے مطابق اس کے بعد ہی 2018ء کے عالمی کپ مقابلوں میں شرکت نہ کرنے کی دھمکی کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔