1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بغیرشادی ساتھ‘ کی ترویج، ایرانی عدالت نے میگزین بند کر دیا

عاطف توقیر27 اپریل 2015

ایران کی عدالت نے ’زنانِ امروز‘ نامی جریدے پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نوجوان جوڑوں کو ’وائٹ میریج‘ یا ’شادی کے بغیر‘ ساتھ رہنے پر اکسا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1FFTH
تصویر: picture-alliance/Zumapress/Morteza Nikoubazl

پیر کے روز ایرانی اخبار شرغ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران میں شادی کے بغیر کسی بھی قسم کا جنسی تعلق جرم ہے اور اسی تناظر میں اس جریدے کو بند کرنے کے احکامات صادر کیے گئے۔

سن 1979ء میں آنے والے اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں نافذ کئے گئے شرعی قوانین کے مطابق شادی کے بغیر کسی بھی قسم کا جنسی تعلق قائم کرنا جرم کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سزا کوڑوں سے لے کر سنگ ساری تک ہے۔

گزشتہ برس ماہنامہ زنانِ امروز نے ایک خصوصی ضمیمہ شائع کیا تھا، جس میں ’وائٹ میریج‘ یا بغیرنکاح ساتھ رہنے کی مختلف وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ایران میں ایسے جوڑوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جو نکاح کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مائل ہو رہے ہیں۔

Strand auf der Insel Kish im Iran
ایران میں بغیرشادی جنسی تعلق ایک جرم ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Taherkenareh

شرغ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، ’زنانِ امروز کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی گئی ہے کیوں کہ وہ وائٹ میرج کی تاویلات پیش کرتا تھا اور اس کی ترغیب دیتا تھا۔‘

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے دفتر سے گزشتہ برس ایک حکم نامہ جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق ملک میں بغیرشادی ساتھ رہنے والے جوڑوں کے خلاف کارروائی اور اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ اس حکم نامے میں ایسے رجحاں کو ’اسلامی اقدار کے منافی‘ اور باعثِ شرم قرار دیا گیا تھا۔

ایران کے نوجوانوں اور کھیل کے امور کی وزارت نے ’وائٹ میرج‘ کے رجحان میں اضافے کا ذ‌مہ دار میڈیا کو قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس فعل کی ترغیب دیتا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایرانی قانون کسی خاتون کے لیے طلاق حاصل کرنا انتہائی دشور بنا دیتا ہے، جس کی وجہ سے بغیرشادی کسی اور شخص کے ساتھ رہنے کے رجحان کو ترویج مل رہی ہے۔ تاہم ایرانی قانون ساز خواتین کے لیے طلاق کے حصول میں دشواریوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے، اس بابت سخت قواعد کو ’اسلامی قوانین کا نفاذ‘ قرار دیتے ہیں۔