برلن میں تاثریت اور اظہاریت پسندانہ فن پاروں کی نمائش
22 مئی 2015برلن کی اس تاریخی آرٹ گیلری میں منعقد ہونے والی اس نمائش میں رکھی گئی ڈیڑھ سو سے زائد تصاویر میں سے قریب 100 برلن ہی کے مختلف عجائب گھروں سے لی گئی ہیں۔ برلن کے سرکاری عجائب گھروں کے ڈائریکٹر جنرل میشائل آئزن ہاؤزر اس بارے میں بڑے فخر سے کہتے ہیں، ’’یہ ایک سنسنی خیز بات ہے کہ ہمارے فنی خزانوں میں اتنا کچھ موجود ہے کہ ہم ان کی مدد سے اس نوعیت کی نمائش کا اہتمام کر سکتے ہیں۔‘‘
فن مصوری کی دو اہم اصناف تاثریت اور اظہاریت پسندی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس میں شہری زندگی میں دستیاب سہولتوں مثلاً سڑکوں، پُلوں اور ریل گاڑیوں وغیرہ کی عکاسی کی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جرمن تاثریت پسند مصور لیزراوری نے برلن جیسے بڑے شہر کی ایک بارش والی رات کے منظر کو پیش کرتے ہوئے اپنی تصویر میں 1889ء کے برلن کی ایک سڑک کی منظر کشی میں گیس کے لالٹین کی روشنی میں اس سڑک کے ارد گرد کے علاقوں کے منظر کی جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔
برلن کی آرٹ گیلری کی زینت بننے والی فرانسیسی مصور کامیل پسارو کی مشہور زمانہ تصویر ’بولیوارڈ موماغتغ‘ کے ساتھ ساتھ ایک جرمن مصور کی ایک تصویر نمائش کے لیے رکھی گئی ہے۔ ایک طرف پیرس کی جگمگاتی شاہراہ کی روشنیوں کی آئل پینٹ کے مدھم چھینٹوں سے اس انداز میں نقاشی والی فن مصوری کی ایک اہم صنف ’تاثریت‘ کا انوکھا شاہکار رکھا گیا ہے تو دوسری طرف اس کے مد مقابل انیسویں صدی کے جرمن مصور اور فن مصوری کی دوسری اہم صنف ’اظہاریت‘ کے ماہر لُڈوِگ کِرشنر کی 1912ء کی وہ شاہکار تصویر نمائش کے لیے رکھی گئی ہے جس میں اُس وقت کے شہر برلن کی ایک سڑک کی شوخ زرد، نیلے اور سیاہ رنگوں سے عکاسی کی گئی ہے۔ اسے دیکھتے ہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ فرانسیسی مصور کے ’تاثریت‘ کے شاہکار فن پارے کا رد عمل اور ’اظہاریت‘ کا شاہکار ہے۔
ان دونوں شاہکاروں کو ایک دوسرے کی ضد کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ برلن آرٹ گیلری کی اس نمائش میں فرانسیسی اور جرمن مصوروں کے ان شاہکاروں کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
برلن کے اولڈ نیشنل گیلری میوزیم میں 22 مئی سے شروع ہونے والی یہ نمائش 20 ستمبر تک جاری رہے گی جس میں شائقین کی ایک بڑی تعداد کی شرکت متوقع ہے۔