1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’برقعہ پوش خواتین کو علیحدہ بٹھانے کا منصوبہ ترک‘

ندیم گِل20 اکتوبر 2014

آسٹریلیا میں برقعہ پہننے یا نقاب اوڑھنے والی خواتین کو پارلیمنٹ ہاؤس میں علیحدہ بٹھانے کا ایک متنازعہ منصوبہ ترک کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے اس منصوبے پر سخت تنقید کی تھی۔

https://p.dw.com/p/1DYW7
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Coch

اس منصوبے کے تحت برقعے میں ملبوس یا نقاب اوڑھنے والی خواتین کو پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے والوں کے لیے مخصوص ایک علیحدہ حصے میں بٹھایا جانا مقصود تھا۔ تاہم شدید مخالفت کے بعد پیر کو یہ منصوبہ واپس لینے کا اعلان کر دیا گیا۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر برونوین بشپ اور سینیٹ کے صدر اسٹیفن پیری نے دو اکتوبر کو فیصلہ کیا تھا کہ ایسی خواتین کو شیشے لگے ان حصوں میں علیحدہ بٹھایا جائے گا جو عام طور پر پارلیمنٹ کے دورے کے لیے آنے والے اسکول کے بچوں کے لیے مخصوص ہوتے ہیں تاکہ ان کے شور سے پارلیمنٹ کی کارروائی متاثر نہ ہو۔

یہ فیصلہ اسلامی ریاست گروہ کے ابھرنے کے بعد ممکنہ سکیورٹی خدشات پر ہونے والی بحث کے نتیجے میں کیا گیا تھا۔ تاہم ہیومن رائٹس اور نسلی امتیاز کے گروپوں نے اس فیصلے کی مذمت کی تھی۔

Bildergalerie Ramadan 2012
پارلیمنٹ میں خواتین کو علیحدہ بٹھانے کے فیصلے کو مسلمان خواتین کے خلاف امتیازی رویہ قرار دیا گیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

خبر رساں ادارے اےایف پی کے مطابق کمشنر برائے نسلی امتیاز ٹِم ساؤتفوماسانے نے فیئرفیکس میڈیا کو بتایا کہ اصلی فیصلے کے مطابق مسلمان خواتین سے دوسری خواتین کے مقابلے میں الگ طریقے سے پیش آیا جاتا۔ انہوں نے کہا: ’’کسی سے بھی دوسرے درجے کے شہری کے طور سلوک نہیں کیا جا سکتا، کم از کم پارلیمنٹ میں نہیں۔‘‘

ساؤتفوماسانے نے مزید کہا: ’’میں نے آج کے دِن تک کوئی ایسا تجزیہ یا رائے نہیں دیکھی جس سے یہ پتہ چلا کہ برقعے یا نقاب سے کوئی اضافی یا خصوصی سکیورٹی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔‘‘

لیبر پارٹی کے ٹونی برک نے یہ فیصلہ واپس لیے جانے کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا فیصلہ کبھی کیا ہی نہیں جانا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا: ’’انہیں کس بات نے ایسا سوچنے پر مجبور کیا کہ علیحدگی کا یہ خیال اچھا ہے۔‘‘

دوسری جانب محکمہ برائے پارلیمانی سروسز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ضوابط تبدیل کر دیے گئے ہیں، پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والے تمام افراد کو شناخت کے لیے عارضی طور پر چہرہ دکھانا ہو گا۔

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے: ’’اس سے سکیورٹی اسٹاف کسی بھی ایسے شخص کی شناخت کر سکے گا جس کے پارلیمنٹ میں داخلے پر پابندی ہو یا جسے سکیورٹی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہو۔‘‘

محکمہ برائے پارلیمانی سروسز کے مطابق شناخت کا عمل پورا ہونے پر وزیٹرز کو پارلیمنٹ کی عمارت کے ان حصوں میں جانے کی اجازت ہو گی جو عوام کے لیے کھلے ہوں۔