1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانیہ: تارکین وطن کے خلاف ’سخت اقدامات‘ کا اعلان

امتیاز احمد21 مئی 2015

برطانوی وزیر اعظم نے تارکین وطن کے خلاف ’سخت اقدامات‘ کا اعلان کیا ہے۔ غیر قانونی کام کرنے والوں کی نہ صرف آمدنی ضبط کر لی جائے گی بلکہ یورپی یونین کے شہریوں کی سماجی مراعات تک رسائی بھی محدود کر دی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1FTmA
Großbritannien Kampagne gegen illegale Einwanderer
تصویر: picture-alliance/dpa

برطانیہ کے قومی دفتر شماریات نے کہا ہے کہ گزشتہ برس ملک میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں 52 فیصد اضافہ ہوا، جو پچھلے ایک عشرے کے دوران بلند ترین سالانہ اضافہ تھا۔ برطانیہ میں تارکین وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے آئندہ ہفتے ملکی پارلیمان میں ایک نیا بل پیش کیا جا رہا ہے۔ اس بارے میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے آج جمعرات کے روز کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک سے آنے والے شہریوں کی ملک میں دستیاب سماجی مراعات تک رسائی کو بھی مشکل بنا دیا جائے گا۔

بالٹک کی جمہوریہ لیٹویا میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے روانگی سے پہلے برطانوی وزیر اعظم نے کہا کہ برطانیہ کی طرف نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد ہر صورت میں کم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ سماجی مراعات کے قوانین میں تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں اور یورپی یونین میں برطانوی رکنیت سے متعلق ہونے والے نئے مذاکرات میں ان تبدیلیوں پر لازمی طور پر بات کی جائے گی۔

اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس برطانیہ چھوڑنے والے افراد کی نسبت تین لاکھ اٹھارہ ہزار زائد افراد اس ملک میں داخل ہوئے۔ برطانیہ کی طرف مہاجرت کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق مشرقی یورپ کے ان غریب ملکوں سے تھا، جو کچھ عرصہ قبل یورپی یونین کا حصہ بنے تھے۔

ڈیوڈ کمیرون نے اپنے پہلے دور اقتدار کے دوران وعدہ کیا تھا کہ وہ تارکین وطن کی سالانہ تعداد کم کرتے ہوئے ایک لاکھ تک محدود کر دیں گے لیکن وہ اپنے اس منصوبے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ برطانوی وزیر اعظم نے 2017ء تک ملک میں ایک ایسے ریفرنڈم کے انعقاد کا اعلان بھی کر رکھا ہے، جس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ آیا برطانیہ کو یورپی یونین کی رکنیت چھوڑ دینی چاہیے۔

آئندہ ہفتے جو امیگریشن بل پارلیمان میں پیش کیا جائے گا، اس کے تحت تارکین وطن کے خلاف ’سخت، منصفانہ اور تیز‘ فیصلے کرنے میں مدد ملے گی۔ ڈیوڈ کمیرون کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس نئے امیگریشن بل اور وسیع کارروائی سے ہم غیر قانونی تارکین وطن سے بھرے ہوئے گھروں کا خاتمہ کریں گے، غیر قانونی تارکین وطن کی تعداد کم کرتے ہوئے ان کی ملک بدری کا عمل تیز تر کر دیا جائے گا۔ برطانوی عوام کو پیشہ ورانہ روزگار کے وہ مواقع فراہم کیے جائیں گے، جن کی برطانیہ کو ضرورت ہے۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن دو ہزار چودہ میں برطانیہ پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد تقریباﹰ تین لاکھ اٹھارہ ہزار رہی۔ یاد رہے کہ یورپی یونین کا حصہ بننے والے مشرقی یورپی ملک غریب تصور کیے جاتے ہیں اور وہاں کی باشندے بہتر سرکاری سہولیات کی دستیابی کی وجہ سے جرمنی، برطانیہ اور فرانس جیسے امیر ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں مخصوص حالات میں کام نہ کرنے کی صورت میں بھی کارکنوں کی مالی امداد کی جاتی ہے اور ماہانہ بنیادوں پر بچوں کے لیے چائلڈ الاؤنس بھی دیا جاتا ہے۔