1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

برطانوی سکیورٹی ادارے، پارلیمنٹ اور پریس کے ساتھ تصادم کی راہ پر

عصمت جبیں31 اکتوبر 2014

برطانیہ میں سکیورٹی ادارے بظاہر پارلیمان اور پریس کے ساتھ تصادم کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ایسا ان انکشافات کے بعد ہوا کہ پولیس نے صحافیوں کی خبروں کے ذرائع کی شناخت کے لیے خفیہ طور پر ایک قانون کو اپنے حق میں استعمال کیا۔

https://p.dw.com/p/1Devk
تصویر: picture-alliance/dpa

اس صورت حال کی وجہ سے برطانیہ میں ڈیجیٹل دور میں ذرائع ابلاغ کی آزادی سے متعلق ایک گرما گرم بحث شروع ہو گئی ہے۔ خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق کچھ عرصہ قبل برطانوی اخبارات ’دا سن‘ اور ’میل آن سنڈے‘ میں ایسی بڑی خصوصی رپورٹیں شائع ہوئی تھیں، جو دو سینئر سرکاری اہلکاروں کے زوال کا سبب بنی تھیں۔

یہ رپورٹیں ان اخبارات کے نامہ نگاروں کی انفرادی محنت اور پیشہ ورانہ چھان بین کا نتیجہ تھیں۔ لیکن ان رپورٹوں کے لیے معلومات فراہم کرنے والے ذرائع کی اپنے طور پر شناخت کے لیے برٹش پولیس نے خفیہ طور پر ایک ایسے قانون کو استعمال کیا، جو صرف مشتبہ دہشت گردوں سے متعلق تفتیش کے لیے مخصوص ہے۔

UK England Terror Terrorwarnstufe Polizei 29.08.2014
برٹش پولیس نے خفیہ طور پر ایک ایسے قانون کو استعمال کیا، جو صرف مشتبہ دہشت گردوں سے متعلق تفتیش کے لیے مخصوص ہےتصویر: AFP/Getty Images

ان حالیہ انکشافات کے بعد اسی نوعیت کے چند دیگر واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ تاہم یہ بات واضح نہیں ہے کہ برطانوی سکیورٹی ادارے ایسا کب سے اور کس پیمانے پر کر رہے ہیں کیوں کہ اس طرح انہیں آر آئی پی اے RIPA نامی قانون کے تحت اپنی ایسی کسی بھی کارروائی سے پہلے کسی عدالت سے باقاعدہ اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

’دا سن‘ کی خصوصی رپورٹ کے ذرائع کی شناخت کے واقعے میں پولیس اہلکاروں نے اس اخبار کے پولیٹیکل ایڈیٹر ٹام نیوٹن ڈَن Tom Newton Dunn کے ٹیلی فون ریکارڈ تک رسائی حاصل کی تھی تاکہ یہ پتہ چلایا جا سکے کہ ان الزامات کے پیچھے کون سے سرکاری افسر تھے کہ برطانوی پارلیمان میں لندن حکومت کے اعلیٰ نمائندے اینڈریو مچِل Andrew Mitchell نے پولیس کو گالیاں دی تھیں۔

برطانیہ کے اس کثیر الاشاعت روزنامے کی اس رپورٹ پر پولیس اہلکاروں نے جس خفیہ چھان بین کا راستہ اپنایا، اس پر برٹش میڈیا انڈسٹری کے نمائندہ جریدے ’پریس گیزٹ‘ کی طرف سے ’ہمارے ذرائع کو بچاؤ‘ یا Save Our Sources کے نام سے ایک بھرپور مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔

برطانیہ میں رِیپا RIPA نامی قانون سن 2000 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس کا مقصد جدید ٹیکنالوجی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے ملکی قوانین کو یورپی قوانین سے ہم آہنگ بنانا تھا۔ اس قانون میں یہ طے کیا گیا ہے کہ سرکاری اہلکار کسی شخص کے ٹیلی کمیونیکیشن یا آن لائن ڈیٹا تک کن حالات میں رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

Mitchell, Andrew
برطانوی پارلیمان میں لندن حکومت کے اعلیٰ نمائندے اینڈریو مچِل

اس بارے میں اب لندن میں بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم Bureau of Investigative Journalism کی طرف سے انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں ایک قانونی درخواست بھی دائر کی جا چکی ہے۔ اس بیورو کا کہنا ہے کہ برٹش سکیورٹی اہلکار رِیپا نامی قانون کو اس طرح استعمال کر رہے ہیں کہ وہ اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی نفی کرتا ہے۔

برطانوی بیورو آف انویسٹیگیٹو جرنلزم کے مطابق یورپی عدالت میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے کی ملکی وزیر داخلہ ٹریسا مے Theresa May کی طرف سے بھی حمایت کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ کہتی ہیں کہ صحافیوں کو معلومات مہیا کرنے والے ذرائع کی شناخت کے خفیہ رکھے جانے کو اعلیٰ ترین قانونی تحفظ حاصل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ رِیپا نامی قانون کا استعمال صرف شدید نوعیت کے جرائم کی چھان بین کے لیے مخصوص ہونا چاہیے۔

اس کے برعکس لندن کی میٹروپولیٹن پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر مارک راؤلی زور دے کر کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے اور پولیس اہلکار اس قانون کا استعمال جاری رکھیں گے۔

ان حالات میں یورپی عدالت میں مقدمہ دائر کیے جانے کے بعد برطانوی سکیورٹی ادارے اب ملکی پارلیمان اور طاقتور پریس کے ساتھ تصادم کے راستے پر آ گئے ہیں اور فوری طور پر یہ معاملہ حل ہوتا نظر نہیں آتا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید