1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک پاکستانی کی چوہوں سے ’لڑائی‘

عاطف توقیر5 جنوری 2015

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے متاثرہ شہر پشاور کے رہائشی آئے دن بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات سے دوچار رہتے ہیں، تاہم اس شہر کی گلیوں میں چوہوں کا بھی راج ہے۔

https://p.dw.com/p/1EF1x
تصویر: picture-alliance/dpa/Andrew Gombert

پشاور کے رہائشیوں کو جہاں ایک طرف دہشت گرد طالبان سے جنگ کا سامنا ہے، وہیں اُنہیں ایسے چوہوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے، جو بے شمار چوزے کھا چکے ہیں، بالغوں کو کاٹ چکے ہیں اور بیماریاں پھیلانے کا محرک بن رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک بچہ اسی صورت حال کا نشانہ بن کر ہلاک بھی ہو گیا تھا۔ ایسے حالات میں پشاور کا رہائشی نصیر احمد ایک نئی طرح کی لڑائی میں مصروف ہے۔

احمد کے پاس ایک کدال ہے، ایک ہتھ گاڑی ہے اور پلاسٹک کے دستانے ہیں اور وہ اپنی تین بیٹیوں کے ہمراہ چوہوں کے خلاف اس لڑائی میں مصروف ہے۔ 40 کی عمر کے لگ بھگ نصیر احمد گزشتہ 18 ماہ سے شہر میں چوہا مار مہم شروع کیے ہوئے ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اب تک ایک لاکھ سے زائد چوہے ہلاک کر چکا ہے۔

’’میرا یہ مشن ہے اور میں نے یہ شروع تب کیا جب میرے ایک دوست کو اپنی بیوی کو اس لیے ہسپتال لے جانا پڑا کہ اسے ایک چوہے نے کاٹا تھا۔‘

پشاور کے نواحی علاقے زریاب کے رہائشی احمد نے بتایا، ’اس کا علاج معالجے کا خرچہ پانچ ہزار روپے آیا اور اسے اینٹی ریبیز انجیکشن بھی لینا پڑے۔‘

Tier Ratte
چوہوں کا یہ شکاری اب تک ہزاروں چوہے ٹھکانے لگا چکا ہےتصویر: picture-alliance.de

چوہے نو سے بارہ انچ کے لگ بھگ کے ہوتے ہیں اور اگر دُم بھی شامل کر لی جائے، تو اتنی ہی لمبائی اور بنتی ہے۔

احمد نے بتایا، ’یہ (چوہے) ہر طرف ہیں۔ گلیوں میں، مارکیٹوں میں اور دکانوں کے اندر۔‘

چوہوں کے اس شکاری کا کہنا ہے کہ چوہے رات کے وقت حملہ کرتے ہیں اور صبح سے پہلے پہلے فرار ہو جاتے ہیں۔ یہ کپڑے کاٹ ڈالتے ہیں، خوراک کو زہریلا بنا دیتے ہیں اور خواتین اور بچوں کو کاٹتے ہیں۔

احمد نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’پہلے چوہوں کی تعداد کم ہوا کرتی تھی۔ مگر حالیہ برسوں میں شدید مون سون بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے یہ اب مضافاتی علاقوں کے ساتھ ساتھ شہر میں بھی پھیل گئے ہیں۔‘

نصیر احمد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر چوہوں نے شہر میں گٹروں اور نالیوں میں اپنی آماج گاہیں بنا رکھی ہیں، یہ رات کے وقت باہر نکل آتے ہیں اور اپنے تیز اور نوکیلے دانتوں سے غریب لوگوں اور اُن کے سامان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

احمد بھی اپنے مشن پر رات ہوتے ہی نکل پڑتا ہے۔ وہ پیدل، گلی گلی، گھر گھر اور دکان دکان جا کر ان چوہوں کو ہلاک کرتا ہے۔ وہ کرتا یہ ہے کہ وہ روٹی کے ٹکڑوں پر میٹھا لگاتا اور اس پر زہریلا کیمیکل اسپرے کر دیتا ہے۔ ’ان چوہوں پر اب مقامی زہر کا اثر نہیں ہوتا، اس لیے میں نے اپنا ہی ایک فارمولا تیار کر رکھا ہے۔‘