1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بڑے پیمانے پر ہجرت

الیکسزانڈر کوڈا شیف/ کشور مصطفیٰ27 اپریل 2015

ہزاروں پناہ گزین روز یورپ کی طرف رُخ کر رہے ہیں۔ ان کی ایک نئی زندگی کی تمنا سرحد پار کرنے کی مشکلات کے خوف سے کہیں زیادہ ہے۔ پناہ گزینوں کے رستوں اور مقدر کا احاطہ کیا ہے ڈوئچے ویلے کے چیف ایڈیٹر الیکسزانڈر کوڈاشیف نے۔

https://p.dw.com/p/1FFQV
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Montanalampo

سال رواں کے آغاز سے ہی یورپ کی جانب پناہ گزینوں کا سیلاب رواں ہو گیا تھا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ غربت بلکہ شدید غربت، تعلیم کا فقدان اور روزگار کے حصول کی مکمل نا اُمیدی۔ آمریت، مطلق العنانی، اذیت رسانی، تعاقب، جبر، جنگیں، خانہ جنگی۔ اکثر ایک شکستہ اور تباہی سے دوچار ریاست پناہ گزینوں کی یورپ کی طرف آمد کا سبب بنتی ہے جہاں لوٹ مار کرنے والے گروہوں کا راج ہے۔

نہتے اور لاچار انسانوں کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری صورت باقی نہیں رہتی کہ وہ اپنی بقاء کی تلاش میں بیرونی ممالک کا رُخ کریں اور کسی غیر معاشرے میں جاکر اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں اور اپنی قسمت آزمائیں۔ ان پناہ گزینوں کا تعلق اریٹریا، صومالیہ، لیبیا، شام، عراق، افغانستان، پاکستان اور دیگر بحران زدہ علاقوں سے ہوتا ہے۔ یہ پناہ گزین کسمپرسی کی حالت میں یورپ پہنچتے ہیں۔

Kudascheff Alexander Kommentarbild App
ڈوئچے ویلے کے چیف ایڈیٹر الیکسزانڈر کوڈاشیف نے

گھناؤنا کاروبار

ایک اندازے کے مطابق اس وقت 50 ملین پناہ گزین سر چھپانے کی تلاش میں سر کردہ ہیں۔ یہ افراد انتہائی کٹھن سفر اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر شروع کرتے ہیں۔ یہ محض پناہ کی تلاش میں فرار نہیں ہوتے بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور اُن سے اپنے مستقبل کی بہتری کی اُمیدیں لگا بیٹھتے ہیں۔ یورپ کی طرف آنے والے پناہ گزین زیادہ تر شام سے ترکی اور وہاں سے الجزائر پہنچتے ہیں، جہاں سے لیبیا پہنچنا اُن کے لیے نسبتاً آسان ہوتا ہے اور لیبیا ان کے لیے اس لیے زیادہ کشش رکھتا ہے کہ وہاں سے بذریعہ بحری جہاز وہ یورپی ساحلی علاقوں کا رُخ کرسکتے ہیں۔ یورپ ہی اُن کا سہانا سپنا ہوتا ہے تاہم یورپ تک کا رستہ طے کرنے کے دوران ہی انسانی کاروبار کرنے والے ان جرائم پیشہ گروہوں کی طرف سے ان پناہ گزینوں کو تنہا بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے اور اکثر و بیشتر یہ پناہ گزین ڈوب کر لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ گھناؤنا کاروبار غلامی کی جدید شکل میں بہت زیادہ چمک رہا ہے اور انسانوں کے مقدر اور زندگیوں سے کھیلنے والے یہ گروہ اربوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔

اس طویل اور خطرناک سفر کو مکمل کرنے میں اگر چند پناہ گزین کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ کسی نا کسی ہنگامی مہاجر کیمپ تک پہنچا دیے جاتے ہیں جہاں انہیں کبھی کبھار طبّی امداد فراہم کر دی جاتی ہے تاہم تھوڑے ہی عرصے میں انہیں ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ جو پناہ گزین اپنے مقدر سے جنگ کرنے کی مزید ہمت رکھتے ہیں وہ کسی نا کسی غیر قانونی گروہ کا سہارا لیتے ہوئے غیر قانونی کاموں میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ آخر انہیں اپنا اور اپنے گھروالوں کا پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ ان میں سے چند ایسے یورپی ممالک کا رُخ کرتے ہیں جہاں انہیں سیاسی پناہ ملنے کی امید ہو۔ زیادہ تر پناہ گزینوں کا مقدر دوبارہ اُن کا بحران زدہ ملک اور وہاں کی مایوس کُن صورتحال ہی بنتی ہے جہاں انہیں واپس جانا پڑتا ہے۔

Grenze Iran Afghanistan afghanische Flüchtlinge Abschiebung
ایران اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں افغان پناہ گزینوں کی نقل و حرکتتصویر: picture-alliance/Ton Koene

چھوٹی فتوحات اور بہت بڑی شکست

ڈوئچے ویلے نے رواں ہفتے اپنا مرکزی موضوع پناہ گزینوں کی نقل و حرکت، ان کی پناہ کی تلاش کے آغاز سے لے کر ان کے مستقبل اور مقدر کو مختص کیا ہے۔ اس ہفتے ان تمام ملکوں کا خاکہ پیش کیا جائے گا، جہاں سے یہ پناہ گزین یورپ کی طرف رُخ کرتے ہیں۔ مختلف جائزوں اور رپورٹوں میں ان مہاجرین کے خطرناک سفر کی تفصیلات اور ان کے ساتھ بیتنے والے ہولناک مناظر پیش کیے جائیں گے۔ اُس سفر کی تفصیلات سامنے آئیں گی، جن کا اختتام زیادہ تر موت پر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بیان کیا جائے گا کہ یہ پناہ گزین یورپ اور جرمنی سے کیا توقعات رکھتے ہیں۔ پناہ کا حق انسانی حق ہے تاہم پناہ کے متلاشی ہر انسان کو پناہ ملنا ممکن نہیں۔ بہت سے قانونی اور سیاسی مسائل ان افراد کی خواہشوں کے پورے ہونے کے رستے کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔

اب بھی شمالی افریقہ کے ساحلوں پر یورپ کی طرف روانہ ہونے والے پانی کے جہازوں پر اُن ہزاروں، لاکھوں افراد کی نگاہیں جمی ہوئی ہیں، جو کسی صورت یورپی ساحلوں تک پہنچنے کے متمنی ہیں۔ ان کے لیے یہ دشوار سفر طے کر لینا ہی زندگی کا مقصد بنا ہوا ہے۔ اُس سے آگے اور اُس کے بعد کیا ہوگا ؟ یہ سوالات ان پناہ گزینوں کے لیے معنی نہیں رکھتے۔