1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک اور بنگلہ دیشی بلاگر کا بے رحمانہ قتل

امجد علی30 مارچ 2015

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں مبینہ طور پر مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تحریریں رقم کرنے والے ایک اور بلاگر کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ چند ہفتے پہلے بھی پیش آیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1EzOq
Bangladesch Protest gegen Ermordung von US-Blogger (Bildergalerie)
تصویر: DW

بنگلہ دیش میں ایک سینیئر پولیس افسر نے ملک میں آزاد خیال بلاگرز پر کیے جانے والے اس تازہ حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اُس پر پیر تیس مارچ کی صبح بڑے بڑے چاقوؤں کی مدد سے حملہ کرتے ہوئے جان سے مار دیا گیا۔ پولیس کے مطابق ستائیس سالہ واثق الرحمان بابو پر یہ حملہ ڈھاکہ کے بیگن باڑی علاقے میں اُس کے گھر سے صرف پانچ سو گز کے فاصلے پر کیا گیا۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ایک مقامی پولیس افسر وحید الاسلام نے بتایا کہ یہ حملہ تین افراد نے کیا تھا، جن میں سے دو کو، جو واردات کے بعد فرار ہونے کی کوشش کر ہے تھے، گرفتار کر لیا گیا۔

ایک اور پولیس اہلکار نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ واثق الرحمان پر یہ حملہ تیج گاؤں کے علاقے میں کیا گیا اور یہ کہ اُسے حملے کے فوراً بعد ایک سرکاری ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اُس کی موت کی تصدیق کر دی۔ مزید یہ کہ ملزمان کے قبضے سے تین چاپڑ بھی برآمد کر لیے گئے، جو عام طور پر گوشت کاٹنے کے لیے استعمال کیے جاتےہیں۔ ملزمان نے پولیس کو بتایا ہے کہ اُنہوں نے بابو کو اُس کی اسلام مخالف تحریروں کی وجہ سے قتل کیا ہے۔

Bangladesch Protest gegen Ermordung von US-Blogger (Bildergalerie)
بلاگر اویجیت روئے کے قتل کے خلاف ڈھاکہ میں مظاہرے بھی کیے گئے تھےتصویر: DW

یہ واقعہ بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت اور احتجاج کا باعث بننے والے اُس واقعے کے چند ہفتے بعد عمل میں آیا ہے، جس میں معروف بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اویجیت روئے کو اسی طرح سے تیز دھار چاپڑوں کی مدد سے اُس وقت ہلاک کر دیا تھا، جب وہ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈھاکہ میں یونیورسٹی میں منعقدہ ایک کتاب میلے سے گھر واپس جا رہے تھے۔

پولیس کے مطابق ابھی یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ آیا واثق الرحمان بھی ایک الحاد پرست بلاگر تھے تاہم سوشل میڈیا پر لکھنے والی ایک اور شخصیت نے کہا ہے کہ واثق الرحمان ’مذہبی انتہا پسندی کے خلاف‘ لکھنے کی شہرت رکھتے تھے۔ اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے بنگلہ دیش میں بلاگرز اور آن لائن کارکنوں کے نیٹ ورک کے سربراہ عمران سارکر نے کہا، ’وہ ایک ترقی پسند اور آزاد سوچ والے انسان تھے اور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف تھے اور غالباً ایک قلمی نام سے لکھا کرتے تھے‘۔

اس سال فروری میں بنگلہ دیشی نژاد امریکی بلاگر اویجیت روئے کے قتل کے شبے میں پولیس ایک شخص کو گرفتار کر چکی ہے۔ ایک نئے عسکریت پسند گروپ ’انصار بنگلہ سات‘ نے روئے کے قتل کی ذمے داری قبول کی تھی۔ اس قتل کی تحقیقات میں امریکی وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف بی آئی بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔

اویجیت روئے گزشتہ دو برسوں کے دوران قتل ہونے والے دوسرے الحاد پرست بلاگر تھے جبکہ 2004ء کے بعد سے چوتھے ایسے رائٹر تھے، جن پر حملہ کیا گیا۔ روئے کے قتل پر سینکڑوں سیکولر کارکنوں کی جانب سے کئی روز تک مظاہرے کیے جاتے رہے، جن میں حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔