1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایم کیو ایم صوبائی حکومت سے پھر علیحدہ

رفعت سعید، کراچی20 اکتوبر 2014

سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ ایک بار پھر سندھ حکومت سے علیحدہ ہوگئی ہے۔ ایم کیو ایم نے ماضی میں مختلف وجوہات کی بنا پر گزشتہ پانچ برسوں میں پانچ بار حکومت سے علیحدگی اختیار کی۔

https://p.dw.com/p/1DYpA
تصویر: picture-alliance/dpa

ایم کیو ایم کے مطابق اس مرتبہ حکومت سے علیحدگی کا سبب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے خلاف بیانات اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا مہاجر لفظ کو گالی قرار دینا ہے۔

کراچی میں 18 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کی جانب سے کراچی میں جلسے کی صورت میں طاقت کے اظہار کے صرف ایک روز بعد ایم کیو ایم نے صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ ایک ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران ایم کیو ایم کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر خالد مقبول صدیقی نے بلاول بھٹو سے سوال کیا کہ کیا انہوں نے اپنی والدہ کے قاتلوں کا جینا حرام کیا؟ بلاول بھٹو بتائیں کہ ان میں ایسی کون سے خصوصیت ہے کہ انہیں کم عمری میں پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنادیا گیا؟ خالد مقبول کے مطابق بلاول بھٹو زرداری بمبینو سینما کے مالک تو ہوسکتے ہیں پیپلز پارٹی کے نہیں۔

بلاول بھٹوزرداری کی طرف سے آئندہ انتخابات میں کراچی کو آزاد کرانے کی بات پر ایم کیو ایم کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا
بلاول بھٹوزرداری کی طرف سے آئندہ انتخابات میں کراچی کو آزاد کرانے کی بات پر ایم کیو ایم کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیاتصویر: picture-alliance/dpa

بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں حلقہ بندیوں کے لیے قانون سازی کے حوالے سے آج بلائے گئے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں مہاجروں سے امتیازی سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔

وزیر اعلٰی سندھ قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم کی ناراضگی پر شکوہ بھی کیا کہ گزشتہ پانچ برس بھی ایم کیو ایم کو روٹھتے مناتے گزرے اور اب بھی یہی حال ہے۔ قائم علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں اور متعدد اہم دہشت گرد پکڑے گئے ہیں اور وقت آنے پر ان کی سیاسی وابستگی بھی ظاہر کردی جائے گی۔

دوسری جانب سندھ کے قوم پرست سیاستدان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی تازہ لڑائی کو بھی وزارتوں کی بندر بانٹ اور اقتدار میں حصہ بڑھانے کی جنگ قرار دیا ہے۔

عوامی تحریک کے رہنما ایاز لطیف پلیجو نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم حکومت کے ایک سیکرٹری کے تبادلے کے مطالبے کی منظوری کے لیے سندھ کی وحدت کو نقصان پہچانے کی بات کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایم کیو ایم نے سندھ کی تقسیم کے مطالبے پر ہم سے معذرت کی مگر اب پھر 180 ڈگری کا یو ٹرن لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایم کے ایم کے مطالبے کے خلاف 23 اکتوبر کو سندھ بھر میں ہڑتال کی جائے گی۔

ایاز لطیف پلیجو کا مزید کہنا تھا کہ اگر نواز لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان سیاسی لڑائی ہے تو کیا وہ پنجاب کی تقسیم کی بات کررہے ہیں۔ اگر جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی اور یوسف رضا گیلانی ملتان سے الیکشن لڑتے ہیں تو کیا وہ جیتنے کے لیے ملتان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں؟

مہاجروں سے امتیازی سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا
مہاجروں سے امتیازی سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیاتصویر: picture-alliance/dpa

پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی کہتے ہیں، ’’یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ الطاف حسین جب چاہیں فوج کو گالیاں دیں، جب چاہیں سیاست دانوں کو، جب مرضی ہو صحافیوں کو برا بھلا کہیں اور جب چاہیں ملک توڑنے کی بات کردیں اور اگر کوئی ان پر مناسب الفاظ میں مثبت تنقید بھی کردے توایم کیو ایم کو ناگوار گزرتی ہے وہ کسی کو یہ حق دینا نہیں چاھتے۔ ان کےاس رویے سے سندھ میں کشیدگی ہی پیدا ہو گی۔‘‘

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کے مطابق، ’’ بظاہر تو بلاول بھٹو زرداری کے دو تازہ بیانات جن میں سخت الفاظ کا استعمال اختلافات کی بنیاد بنا، مگر ایم کیو ایم نے روایتی ردعمل سے گریز کیا، پھرخورشید شاہ کے بیان پر وضاحت کے باوجود کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ لیکن 18 اکتوبر کے جلسے سے خطاب میں بلاول بھٹوزرداری کی طرف سے آئندہ انتخابات میں کراچی کو آزاد کرانے کی بات پر ایم کیو ایم کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ اور ایم کیو ایم نے صوبے کی تحریک کا باقاعدہ اعلان کردیا۔‘‘

ایم کیو ایم منتظر تھی کہ چیئرمین پیپلز پارٹی کے بیان کی وضاحت کی جائے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق سندھ کی سیاست لسانی بنیادوں پر واضح طور پر تقسیم ہے اور اگر موجودہ صورت حال کو بروقت کنٹرول نہیں کیا گیا تو خدشہ ہے سندھ کے حالات ایک بار پھر خراب ہو سکتے ہیں۔