ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات ’طول‘ پکڑ سکتے ہیں
23 نومبر 2014خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فریقین کی کوشش ہے کہ باہمی اختلافات کو کم سے کم کیا جا سکے، تاہم اس سلسلے میں فریقین کے درمیان متعدد امور پر اختلاف رائے اب بھی موجود ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی وزیرخارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ جاری بات چیت میں متعدد امور پر واضح خلیج موجود ہے، جسے پاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے کسی حتمی ڈیل تک پہنچنے کی بابت طے شدہ ڈیڈلائن 24 نومبر ہے، تاہم فریقین کے درمیان موجود اختلافات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اس ڈیڈلائن میں توسیع ہو سکتی ہے۔
ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان جاری ان مذاکرات کے ذریعے یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران مستقبل میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی صلاحیت سے دور ہو جائے اور دوسری جانب تہران حکومت اپنے خلاف عائد سخت بین الاقوامی پابندیوں سے چھٹکارا چاہتی ہے اور یورینیم کی افزودگی کے حق سے دستبردار ہونے کو بھی تیار نہیں۔
سفارت کاروں کا خیال ہے کہ ان مذاکرات میں کسی معاہدے کے لیے فریم ورک پر تو اتفاق رائے ہو سکتا ہے، تاہم اس پیچیدہ معاملے کی باریک تفصیلات طے پانے میں ہفتوں یا مہنیوں لگ سکتے ہیں۔
ادھر اختلافات کے باوجود امریکی محکمہء خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس سلسلے میں بات آگے بڑھ رہی ہے۔ محکمہء خارجہ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر کیے بغیر روئٹرز کو بتایا کہ ان مذاکرات میں مرکزی نکتہ تو کسی معاہدے تک پہنچنا ہی ہے، تاہم دیگر متعدد آپشنز پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ تاہم اس عہدیدار نے اس بات پر واضح بات نہ کی کہ آیا ان آپشنز میں ڈیڈلائن میں توسیع بھی شامل ہے یا نہیں۔
ادھر یورپی ذرائع نے کہا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت سے متعلق ایران اور مغربی ممالک میں واضح فرق موجود ہے اور اس سلسلے میں کوئی بڑی پیش رفت اب تک نہیں ہو سکی ہے۔
یورپی سفارت کاروں کے مطابق اگلے 48 گھنٹوں میں کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے کے امکانات ’بہت کم‘ ہیں، کیوں کہ ایرانی مذاکرات کار ’بہت زیادہ لچک‘ کا مظاہرہ نہیں کر رہے ہیں۔