1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں 26 سالہ خاتون کو پھانسی

کشور مصطفیٰ25 اکتوبر 2014

ریحانہ جباری کو ایک سابق اینٹیلی جنس آفیسر کے قتل کی پاداش میں آج صبح پھانسی دے دی گئی۔ جباری کا موقف یہ تھا کہ کئی سال پہلے یہ قتل اُس نے اپنی عزت و ناموس بچانے کے لیے کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1Dc2R
تصویر: privat

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی ارنا نے تہران کے دفتر استغاثہ کے حوالے سے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ ریحانہ جباری کو ہفتے کی صبح پھانسی دے دی گئی۔ فیس بُک پر ریحانہ کو بچانے کے لیے جاری مہم کے ایک ہوم پیچ پر پوسٹ کیے گئے تازہ ترین پیغام ’ابدی آرام‘ سے بھی اس خبر کی تصدیق ہو گئی ہے۔

جمعے کو دیر گئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہہ دیا گیا تھا کہ 26 سالہ ایرانی انٹیریر ڈیزائنر ریحانہ جباری کو پھانسی دے دی جائے گی۔ جرمن ہفت روزہ جریدے اشپیگل کے آن لائن ایڈیشن نے ریحانہ کے ایک چچا کے حوالے سے کہا ہے کہ جمعے کو حکام نے ریحانہ کے والدین کو اطلاع دے دی تھی کہ اُن کی بیٹی کو ہفتے کو طلوع آفتاب سے پہلے پھانسی دی جا سکتی ہے۔

ہفتے کی صبح تہران کے ایک صحافی نے جو ریحانہ کے اہلِ خانہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا، ڈوئچے ویلے کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ ریحانہ شھر رجائی کی جیل میں تھی اور وہیں اُسے پھانسی دے دی گئی ہے۔ مزید یہ کہ ریحانہ کے گھر والوں نے بتایا ہے کہ اُسے بہشت سکینہ قبرستان میں دفنایا جائے گا۔

Vergebung stoppt Exekution im Iran (Bildergalerie)
ایران میں بھانسی کی سزا کا رواج بہت زیادہ ہےتصویر: Isna

2007ء میں ریحانہ نے سابق اینٹیلی جنس اہلکار مرتضیٰ عبدل علی سربندی کو چُھرا گھونپ کر قتل کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ایک مبصر کے مطابق ریحانہ نے سربندی کا قتل اپنے دفاع میں کیا تھا کیونکہ سربندی نے ریحانہ کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی۔

ریحانہ پر سربندی کے قتل کا مقدمہ 2009ء میں نہایت ناقص طریقے سے چلایا گیا تھا۔ ایرانی اداکاروں اور دیگر نامور شخصیات نے ریحانہ کو سنائی جانے والی پھانسی کی سزا پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس سزا کو روکنے کی اپیل کی تھی اور اس صدا کی باز گشت مغربی دنیا میں بھی سنائی دے رہی تھی۔

ریحانہ کو سزائے موت نہ دینے کی درخواستوں میں گذشتہ ہفتوں کے دوران غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا تھا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے مطابق ریحانہ کی ماں کو جمعے کو ایک گھنٹے کے لیے اپنی بیٹی سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ روایت کے مطابق کسی بھی شخص کو سزائے موت دینے سے پہلے اُس کے کسی قریبی رشتہ دار سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔

Vergebung stoppt Exekution im Iran (Bildergalerie)
ایران میں اور ملک سے باہر انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر بھانسی کی سزا کے خلاف ایک عرصے سے مہم چلا رہے ہیںتصویر: Isna

ریحانہ جباری انٹیریر ڈیکوریٹر تھیں اور ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی کے لیے کام کر رہی تھیں۔ انہوں نے 20 سال کی عمر میں 47 سالہ مرتضیٰ عبدل علی کے قتل کا ارتکاب کیا تھا، جو انٹیلی جنس ایجنسی کا سابق اہلکار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ڈاکٹر اور تین بچوں کا باپ تھا۔

اقوام متحدہ اور انٹر نیشنل ہیومن رائٹس گروپوں کے مطابق ریحانہ کے خلاف مقدمے کی کارروائی کے دوران اُس پر دفتر استغاثہ کی طرف سے بہت زیادہ دباؤ تھا اور اُس نے جرم کا اقرار غیر معمولی دباؤ اور دھمکیوں کے تحت کیا تھا۔ ان تنظیموں کا ماننا ہے کہ ریحانہ کے مقدمے کی سماعت دوبارہ ہونی چاہیے تھی۔

اقوام متحدہ میں ایران میں انسانی حقوق کے امور کے خصوصی نمائندے احمد شہید نے اپریل میں کہا تھا کہ سربندی نے اپنے آفس کی ڈیزائننگ کے لیے ریحانہ کی خدمات حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی اور اس بہانے ریحانہ کو ایک اپارٹمنٹ لے جا کر اُس کے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔

Vergebung stoppt Exekution im Iran (Bildergalerie)
مردوں کی اجارہ داری والے معاشروں میں خواتین کو انصاف کم ہی ملتا ہےتصویر: Isna

اُدھر سربندی کے خاندان والوں کا کہنا ہے کہ اُس کا قتل ایک طے شدہ منصوبے کے تحت کیا گیا تھا اور اس بارے میں ریحانہ نے اس امر کا اعتراف بھی کر لیا تھا کہ اُس نے سربندی کو قتل کرنے سے دو روز پہلے ہی چاقو خرید لیا تھا۔ مقتول کے بڑے بیٹے جلال سربندی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ جس اپارٹمنٹ میں اُس کے والد کا قتل ہوا، وہاں پہلے سے ایک شخص موجود تھا تاہم ریحانہ نے اُس شخص کی شناخت ظاہر کرنے سے ہمیشہ انکار کیا۔

ایران کے دو معروف اخبارات ’شرق‘ اور ’اعتماد‘ کو بیان دیتے ہوئے جلال سربندی نے کہا تھا کہ وہ اور اُن کا خاندان ریحانہ کی موت کی سزا کے بارے میں رحم کا اُس وقت تک سوچ بھی نہیں سکتے جب تک کہ اُس کے والد کے قتل کے واقعے کے حقائق سامنے نہیں آتے۔ تب اپریل میں جلال سربندی نے کہا تھا، "ریحانہ کے حقیقی ارادوں کے آشکار ہونے کے بعد اور اُس کی طرف سے شریک جُرم فرد کے بارے میں سچائی بیان کرنے کے بعد ہی ہم اُس کی سزائے موت پر رحم کا سوچ سکتے ہیں"۔