1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا کے خلاف ویکسین کی تیز رفتار تیاری

کشور مصطفیٰ24 اکتوبر 2014

ایبولا کے خلاف ویکسین کی تیاری چند محققین کئی سالوں سے کر رہے ہیں اور کئی ادویات کا مختلف جانوروں پر کامیاب تجربہ بھی کیا جا چُکا ہے۔ مثلاً چوہوں اور بندروں پر۔ اب ان ادویات کا تجربہ انسانوں پر شروع ہونے والا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DbaZ
تصویر: picture-alliance/dpa/Alex Duval Smith

کسی بھی بیماری کے خلاف ایک دوا یا ایک ٹیکا تیار کرنے میں وقت لگتا ہے۔ کوئی دس سال۔ یہ ادویات سازی کی صنعت کا ایک بنیادی اُصول ہے۔ دوا یا ٹیکے پر پہلے ریسرچ کی جاتی ہے۔ تیاری کے بعد اس پر لیبارٹری میں تجربات کیے جاتے ہیں، اُس کے بعد اس دوا کو جانوروں پر آزمایا جاتا ہے۔ پھر اسے کلینیکل ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے اور جب یہ تمام مراحل کامیابی سے گزر جائیں تو پھر یہ ٹیکا یا دوا مریضوں کے علاج کے لیے مہیا کی جاتی ہے۔

مہلک وائرس ایبولا کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے خلاف ویکسین یا حفاظی ٹیکے کی تیاری کے روایتی عمل کے لیے اتنا طویل وقت سرف نہیں کیا جا سکتا۔ محققین کو اس ٹیکے کی تیاری کے لیے بالکل ابتدائی مرحلے سے کام شروع نہیں کرنا پڑے گا۔ ایبولا کے خلاف ویکسین کی تیاری کے بارے میں چند محققین کئی سالوں سے کام کر رہے ہیں اور کئی ادویات کا مختلف جانوروں پر کامیاب تجربہ بھی کیا جا چُکا ہے۔ مثلاً چوہوں اور بندروں پر۔ اب ان ادویات کا تجربہ انسانوں پر کیا جانا ہے اور یہ مرحلہ اب شروع ہو رہا ہے۔

Mali Guinea Ebola Grenzkontrolle Grenze
ایبولا کے سبب بہت سے ملکوں کی سرحدی نگرانی سخت تر کر دی گئی ہےتصویر: Reuters/J. Penney

تحفظ سب سے پہلے

عالمی ادارہ صحت، ڈبلیو ایچ او آئندہ برس یعنی 2015ء جنوری میں ایبولا کے خلاف تیار ہونے والے دو ٹیکوں کو مغربی افریقی ممالک کے صحت کے شعبوں کے حوالے کرے گا۔ لگ بھگ 20 ہزار ٹیکے جنوری اور اتنے ہی اس کے بعد کے مہینوں میں جنوبی افریقہ کے مریضوں کے لیے دستیاب ہوں گے تاہم اس عمل کے شروع ہونے سے پہلے اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان ادویات کے ضمنی اثرات نقصاندہ نہ ہوں۔ اس سلسلے میں تمام تر مطالعاتی جائزوں سے یہ ثابت ہو جانا چاہیے کہ اس ٹیکے سے جسم میں ایبولا وائرس کے خلاف مدافعت کی قوت پیدا ہو جاتی ہے یعنی یہ بات یقینی ہونی چاہیے کہ جس مریض پر اس ٹیکے کو آزمایا جائے اُس کے جسم میں ایبولا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز بننا شروع ہو رہی ہیں۔

پہلے مرحلے میں ان ٹیکوں کو امریکا، افریقہ اور یورپ، خاص طور سے جرمنی کے ایسے صحت مند افراد پر آزمایا جائے گا جو خود کو اس تجربے کے لیے رضاکارانہ طور پر پیش کریں گے۔ دیگر ممالک میں بھی جلد یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائریشن ڈبلیو ایچ او امید کر رہا ہے کہ ان سیفٹی تجربوں کے اعداد و شمار دسمبر تک سامنے آجائیں گے جس کے بعد تجربے کا دوسرا مرحلہ جنوری فروری میں مکمل ہونے کے بعد ان ٹیکوں کا استعمال ایبولا سے متاثرہ ممالک میں شروع ہو جائے گا۔

Ebola Virus Hamburg Hochsicherheitslabor Flash-Galerie
جرمن شہر ہیمبرگ کی ایک لیبارٹری میں بھی ایبولا ہائرس پر تحقیق جاری ہےتصویر: AP

اہم مرحلہ

دوسرے مرحلے میں تجربہ ایسے افراد پر کیا جائے گا جو ایبولا وائرس کے شکار افراد کے ساتھ مبینہ طور پر رابطے میں آئے ہوں گے۔ مثال کے طور پر مغربی افریقہ کے ایبولا مراکز میں کام کرنے والی نرسیں اور ڈاکٹرز۔ اس تجربے کے نتائج سے یہ پتہ چل جانا چاہیے کہ آیا یہ ٹیکے مؤثر ہیں یا نہیں۔

عام طور سے کسی بھی دوا یا ٹیکے کے تجربے کے دوسرے مرحلے میں 100 تا 500 افراد پر اسے آزمایا جاتا ہے۔ جب یہ تجربہ کامیاب ثابت ہو جائیں تو تیسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے جس میں ہزاروں افراد پر اس دوا کو ٹیسٹ کیا جاتا ہے۔ ایبولا کے کیس میں یہ نظر آ رہا ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن تجربے کے دوسرے مرحلے ہی میں اس ٹیکے کو ہزاروں افراد پر آزمانا چاہتا ہے۔ اس طرح تیسرے مرحلے کی ضرورت باقی نہیں رہ جائے گی اور ایبولا وائرس کے خلاف جنگ میں وقت ضائع کیے بغیر یہ سلسلہ جلد شروع ہو سکے گا۔