ایبولا کے خلاف جنگ میں مثبت پیشرفت کی نوید
29 اکتوبر 2014امریکی صدر باراک اوباما نے منگل کے دن کہا کہ مغربی افریقی ممالک میں ایبولا وائرس کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات انتہائی اہم ہیں تاہم واشنگٹن کسی بھی ممکنہ خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ متاثرہ ممالک گنی، لائبیریا اور سیرا لیون روانہ کی جانے والی خصوصی امریکی ٹیم سے ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد اوباما نے کہا کہ آخر کار اس مہلک وباء کی روک تھام کی کوششیں رنگ لانے لگی ہیں، ’’لائبیریا میں کچھ مثبت پیشرفت ہوئی ہے۔‘‘ انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ اس وائرس کو شکست دے دی جائے گی۔
اوباما نے مزید کہا کہ امریکا اس وائرس کے خلاف جاری جنگ میں پیچھے نہیں ہٹے گا۔ انہوں نے ایسے امریکی رضاکاروں کا عوامی سطح پر شکریہ بھی ادا کیا، جو اس وباء سے نمٹنے کے لیے مغربی افریقی ممالک گئے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسے امریکیوں کی ستائش کرنے کے علاوہ ان کا شکریہ اور تعاون بھی کرنا چاہیے۔
امریکی صدر اوباما نے یہ واضح بھی کیا کہ ان کی انتظامیہ اس وباء کے تناظر میں چوکنا ہے اور اس کی کوشش ہے کہ اسے وہیں ختم کر دیا جائے، جہاں سے یہ پھوٹی ہے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ امریکی حکومت اس جنگ میں عالمی سطح پر قائدانہ کردار ادا کرے گی۔ رواں برس کے اوائل میں منظر عام پر آنے والی اس مہلک وباء کے نتیجے میں ہلاک شدگان کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ چکی ہے۔
امریکی امدادی ادارے یو ایس ایڈ کے کارکنان کے علاوہ امریکی حکومت نے چھ سو فوجی لائبیریا جبکہ ايک سو سینیگال ميں تعینات کر رکھے ہے، جو ایبولا کی روک تھام کے لیے مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اس وباء سے نمٹنے کے لیے واشنگٹن حکومت متاثرہ علاقوں میں چار ہزار فوجی روانہ کر سکتا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سمانتھا پاور نے متاثرہ افریقی ممالک کے دورے کے دوران مقامی حکومتوں کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سراہتے ہوئے عالمی امدادی اداروں پر زور دیا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں دل کھول کر مدد کریں۔ پاور کے بقول بالخصوص سیرا لیون اور لائبیریا کی حکومتوں نے اس وائرس کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی محفوظ انداز میں تدفین سے ایبولا کے پھیلاؤ کو روکنے میں اہم کامیابی حاصل کی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ اس وائرس کے پھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہی تھی کہ ہلاک شدگان کے رشتہ دار اپنے پیاروں کو روایتی انداز میں دفناتے رہے، جس کی وجہ سے یہ وائرس ان میں منتقل ہوتا رہا۔
سمانتھا پاور نے ایسے منصوبہ جات کو مسترد کر دیا کہ متاثرہ ممالک سے مسافروں کی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی جائے۔ لائبیریا میں خاتون صدر ایلن جونسن سرلیف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں منگل کو پاور نے کہا کہ سفری پابندیاں اس ’عالمی بحران‘ کا حل نہیں ہیں۔ تاہم آسٹریلیا نے ایبولا سے متاثرہ مغربی افریقی ممالک کے لیے ویزہ پابندیوں کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ کينبرا حکومت وہاں اپنا طبی عملہ روانہ نہیں کرے گی۔