1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا کو پھیلے ایک برس مکمل، ’عالمی ادارہ صحت کی ناکامی‘

کشور مصطفیٰ23 مارچ 2015

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے ایبولا کے سد باب کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔

https://p.dw.com/p/1Evec
تصویر: DW/J. Kanubah

مغربی افریقہ میں ایبولا وائرس کا پہلا مریض گزشتہ برس 23 مارچ کو تشخیص کیا گیا تھا۔ یوں آج اس مہلک وباء کو پھیلے ایک سال مکمل ہو گیا۔ اس موقع پر ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کرنے والے امدادی ادارے ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ نے ایبولا کے خلاف اقدامات میں عالمی برادری کے کردار کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں اس ایجنسی نے ایبولا کے مہلک وائرس کے پھیلاؤ کے اس ایک سال کے عرصے میں خود اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور خود کو درپیش مسائل کو’ ناقابل بیان ہیبت‘ سے تعبیر کیا ہے۔

مارچ 2014ء میں مغربی افریقہ میں شناخت کیے گئے اس مہلک وائرس کا شکار ہو کر اب تک ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 10 ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے جبکہ قریب 25 ہزار انسان ایبولا وائرس کا شکار ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک گنی، سیرا لیون اور لائبیریا ہیں۔

Guinea MSF Ärzte ohne Grenzen Einsatz gegen Ebola
گنی میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ٹیمتصویر: Amandine Colin/Ärzte ohne Grenzen

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز ، جو اپنے فرانسیسی مخفف MSF سے مشہور ہے، نے اپنی تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے ایبولا کے سد باب کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔ اس ایجنسی نے کہا ہے کہ دنیا میں رونما ہونے والی صحت سے متعلق ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی چیمپئن، جس کے پاس ایبولا وائرس کے پھیلاؤ پر کنٹرول کے لیے طبی مہارت بھی موجود ہے، ایبولا کے معاملے میں فوری اور مؤثر اقدامات میں بُری طرح ناکام رہی ہے۔

اس رپورٹ میں ڈبلیو ایچ او پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ گزشتہ برس جون میں جب لائبیریا کی طرف سے ہنگامی امداد کی اپیل کی گئی تھی اور امداد کا بے چینی سے انتظار کیا جا رہا تھا تب، ڈبلیو ایچ او کی طرف سے فوری اقدامات اور انتباہی پیغامات سامنے آنے کی بجائے اس بڑے سانحے کو نظر انداز کرنے کے سلوک روا رکھا گیا۔

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ایک رابطہ کار ماری کرسٹین فیرر اس بارے میں کہتی ہیں، ’’ مجھے یاد ہے کہ اُس وقت ہم نے ڈبیلو ایچ او سے امداد کی فوری اپیل کی تھی۔ ہمارا کہنا تھا کہ اگر ہمیں فوری طبی امداد روانہ کر دی جائے تو ہم ایبولا کے پھیلاؤ کو روک سکتے ہیں۔ ‘‘ ماری کا مزید کہنا ہے، ’’وہ ایبولا کے پھیلاؤ کا ابتدائی دور تھا اور ہمارے پاس تب وقت تھا کہ ہم اس پر قابو پا سکیں۔ ہماری امداد کی اپیل وہاں تک پہنچی، سُنی بھی گئی تاہم اُس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔‘‘

Afrika Ebola in Guinea (Symbolbild)
ڈبلیو ایچ او نے ایبولا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد خاصی تاخیر سے ایکشن لیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/K. Palitza

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی رپورٹ کے مطابق 2014ء جولائی تک ڈبلیو ایچ او نے ایبولا کے پھیلاؤ کے سد باب کے لیے کوئی علاقائی مرکز قائم نہیں کیا، جو اس تنظیم کے ساتھ رابطہ کاری کرتا۔ تب تک اس وائرس کی دوسری لہر متاثرہ ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چُکی تھی۔

رپورٹ میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ایبولا پھیلنے کے بعد کے ابتدائی مہینوں میں اس مہلک وائرس سے نمٹنے کے دشوار عمل میں تمام تر بوجھ MSF کے کاندھوں پر تھا جبکہ ایبولا وائرس سے نمٹنے کے لیے اس تنظیم کے پاس محض 40 تربیت یافتہ اہلکار موجود تھے۔

MSF کے ایک ڈائرکٹر آپریشنز بریس دے لے وین کا اس بارے میں کہنا ہے، ’’ہم ایک ہی وقت میں ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے تھے۔ نہ ہی ہم تنہا اس صورتحال کا مقابلہ کر سکتے تھے۔‘‘ MSF کی رپورٹ میں کہا گیا ہے،’ عالمی برادری خواب غفلت سے اُس وقت بیدار ہوئی جب ایک امریکی ڈاکٹر اور ایک ہسپانوی نرس ایبولا وائرس کا شکار ہوئی اور یہ خبر عام ہوئی تھی‘۔

اُدھر ڈبلیو ایچ او نے اس امر کا اقرار کر لیا ہے کہ ایبولا کے پھیلاؤ کے بعد امداد کی ابتدائی اپیل پر اُس کا رد عمل سست روی کا شکار اور ناکافی تھا تاہم جیسے ہی اس عالمی ادارے نے اپنی امدادی کاروائیاں شروع کیں، اُس کے بعد ہر سطح پر تیزی سے کام کیا گیا اور تب سے ڈبلیو ایچ او انتہائی مستعدی سے ایبولا وائرس کے سد باب اور اس سے متاثرہ افراد کی امداد کے لیے مؤثر اقدامات میں مصروف ہے۔