1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایبولا وائرس: ’چوہوں اور بندروں کے گوشت سے پرہیز‘ کی اپیل

کلارا والتھر / امتیاز احمد25 جون 2014

مغربی افریقہ میں رواں برس کے آغاز سے اب تک تین سو پچاس افراد ایبولا وائرس کے ہاتھوں ہلاک ہو چکے ہیں۔ یہ وباء اپنی اب تک کی بدترین شکل اختیار کر چکی ہے۔ ڈاکٹروں نے ’چوہوں اور بندروں کے گوشت سے پرہیز‘ کی اپیل کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CPvS
تصویر: Seyllou/AFP/Getty Images

مغربی افریقہ میں پھیلا ہوا مہلک ایبولا وائرس ایک بڑا علاقائی خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ سن 2013ء کے اواخر میں یہ وائرس مغربی افریقہ میں سامنے آیا تھا لیکن اب یہ گنی، سیرالیون اور لائبیریا تک پہنچ گیا ہے۔ ان تین ملکوں میں ساٹھ نئے کیسز سامنے آئے ہیں۔ بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ سے وابستہ بارٹ جانسنز کہتے ہیں، ’’یہ وباء قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ کئی نئے متاثرہ افراد کے سامنے آنے سے اس کے پھیلاؤ کا خطرہ واقعی حقیقی ہے۔‘‘

ابھی تک اس وائرس سے 350 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور مزید تباہی کا خطرہ موجود ہے۔ سن 1976ء میں پہلی مرتبہ اس بیماری کے نتیجے میں 280 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اُس وقت پہلی مرتبہ یہ وائرس دریافت کیا گیا تھا اور اس کا نام ایبولا رکھا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ وائرس مغربی افریقہ میں وقتاﹰ فوقتاﹰ سامنے آتا رہا ہے اور انسانی ہلاکتیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ لیکن اب یہ وائرس تین ملکوں تک پھیل چکا ہے اور اس سے نمٹنا بالکل ایک نیا چیلنج بن چکا ہے۔

’چوہوں اور بندروں کا گوشت کھانا بند کریں‘

ان تینوں ملکوں کی حکومتیں گزشتہ کئی مہینوں سے اس بیماری کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گنی میں حکام نے جنگلی جانوروں کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس ملک میں بندروں ، چمگادڑوں، ہرنوں اور چوہوں کا گوشت بڑے شوق سے کھایا جاتا ہے۔ لیکن یہی جانور اس وائرس کی انسانوں میں منتقلی کا موجب بننے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس ملک میں دور دراز کے علاقوں سے لوگ گوشت کی خریداری کے لیے وائرس سے متاثرہ علاقوں میں پہنچتے ہیں اور اس طریقے سے بھی یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔

جرمنی میں ماربرگ کی یونیورسٹی میں virology کے ادارے کے سربراہ سٹیفن بیکر کہتے ہیں کہ ایبولا وائرس متاثرہ افراد کی تدفین کے وقت زیادہ لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے بھی پھیل رہا ہے۔ افریقہ میں مردے کو پہلے اچھی طرح غسل دیا جاتا ہے، پھر نہ صرف لاش کا اچھی طرح بناؤ سنگھار کیا جاتا ہے بلکہ سوگواران مردے کو بار بار گلے بھی لگاتے ہیں۔ بیکر کے مطابق یہ وائرس نہ صرف خون بلکہ کسی بھی جسمانی رطوبت کے ذریعے بھی دوسرے شخص کو لگ سکتا ہے۔

لاعلاج بیماری

اس وائرس کے خلاف مدد فراہم کرنے کے لیے متعدد جرمن ماہرین بھی جنوبی افریقہ میں ہیں۔ ماربرگ یونیورسٹی کے سائنسدانوں کے علاوہ صرف بین الاقوامی تنظیم ’ڈاکٹرز وِدآؤٹ بارڈرز‘ کے 300 ماہرین اس وقت مغربی افریقہ میں کام کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ تنظیم اس وقت گنی کے ان علاقوں میں کام کر رہی ہے، جو اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ اس وقت ایبولا وائرس کا شمار دنیا کے خطرناک ترین متعدی جرثوموں میں ہوتا ہے اور ابھی تک اس کے خلاف کوئی مؤثر دوائی یا ویکسین تیار نہیں کی جا سکی۔

اس وائرس میں مبتلا ہونے والے افراد کو اسہال کی شکایت ہوتی ہے، اس کے علاوہ اُن کے جسم کے اندرونی اور بیرونی اعضاء سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس مرض کی ابتدائی علامات میں سر درد، بخار، مساموں میں درد، کمزروی اور سینے کی جکڑ شامل ہیں۔