1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آپریشن خیبر ون: رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد پینتالیس ہزار سے زائد

فرید اللہ خان، پشاور31 اکتوبر 2014

پاکستانی قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن کے باعث مزید لوگ گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات پر منتقل ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1Df7C
تصویر: picture-alliance/dpa

فاٹا کی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 45 ہزار افراد کی رجسٹریشن کی جا چکی ہے۔

کئی حلقوں کا کہنا ہے کہ داخلی مہاجرت کرنے والے ان افراد کے لیے حکومت کی جانب سے امداد فراہم نہیں کی جا رہی اور ان میں سے زیادہ تر شہری پشاور اور نوشہرہ میں پناہ گزینوں کے کیمپوں یا پھر اپنے رشتہ داروں کے ہاں مقیم ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں پہلے ہی سے 20 لاکھ بے گھر قبائلی جبکہ سولہ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیں جن کی وجہ سے نہ صرف صوبے کا انفراسٹرکچر بری طرح متاثر ہوا ہے بلکہ سکیورٹی اداروں کو قیام امن کے سلسلے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ لیکن سیاسی جماعتیں قبائل کے مسائل کے حل کے لیے متحد ہونے کے بجائے الگ الگ جرگے بلاتی ہیں جو محض تقریروں تک محدود ہوتے ہیں۔

Flüchtlinge Waziristan Pakistan
خیبر ایجنسی میں جاری آپریشن خیبر ون کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے 45 ہزار افراد کی رجسٹریشن کی جا چکی ہےتصویر: AP

حال ہی میں عوامی نیشنل پارٹی، جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے اسلام نے الگ الگ جرگے بلائے لیکن ان جرگوں کے نتیجے میں بے گھر افراد کے مسائل میں کوئی کمی نہ ہوئی تاہم انہوں نے وفاقی حکومت کو بے گھر افراد کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کے نتائج سے ضرور آگاہ کیا۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان کا کہنا تھا، ”قبائل کو کیمپوں میں لایا گیا اور جیسے ہی کیمپ سجے، اسلام آباد میں کرسی کی لڑائی چل پڑی۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ مسئلہ اتنا گھمبیر ہے کہ اگر اسے بروقت حل نہ کیا گیا تو اس کے نتائج وہی ہوں گے جیسے 1971 میں اس دور کے مشرقی پاکستان میں تھے۔“

جہاں خیبر ایجنسی کے بے گھر ہونے والے افراد پشاور میں ڈھائی ماہ سے سہولیات کی فراہمی کے لیے احتجاج کر رہے ہیں وہیں پر شمالی وزیرستان سے بے گھر ہو کر آنے والے ہزار ہا شہری بھی امداد کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ انہیں امداد نہ دینے کی وجہ ان کے شناختی کارڈز میں درج دوہرے پتے بتائے جاتے ہیں۔

Flüchtlinge Waziristan Pakistan
صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف شہروں میں پہلے ہی سے 20 لاکھ بے گھر قبائلی جبکہ سولہ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رہائش پذیر ہیںتصویر: AP

صوبائی حکومت ان مسائل کے لیے وفاق سے بات کرنا گوارا نہیں کرتی اور لاکھوں بے گھر افراد کو نظر انداز کرتے ہوئے احتجاج کی سیاست کو صوبے تک وسعت دی جا رہی ہے۔ اس طرز عمل نے بے گھر قبائل سمیت صوبے کے عوام کے مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے۔

جمعرات کے روز اسمبلی اجلاس کے دوران حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان آپس میں گتھم گتھا رہے اور نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ منتخب ارکان اسمبلی ایک دوسرے پر تنقید میں مصروف ہیں جبکہ صوبے میں اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور ٹارگٹ کِلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

اس کے برعکس خیبر پختونخوا اسمبلی میں تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شوکت علی یوسفزئی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”جب یہ آپریشن شروع ہو رہا تھا، تو بہت سارے خدشات تھے کہ پختونخوا میں بدامنی میں اضافہ ہو گا، کیونکہ یہ صوبہ قبائلی علاقوں کی سرحد پر واقع ہے اور یہ بھی امکان تھا کہ چونکہ دہشت گردوں کا نیٹ ورک یہاں پہلے سے موجود تھا اور یہاں دہشت گردی کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن فوج نے بہتر حکمت عملی کے ساتھ آپرشن کو آگے بڑھایا تو خیبر پختونخوا کی پولیس نے بھی حالات پر قابو پانے کے لیے مؤثر اقدامات کیے اور یوں امن و امان برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل ہوئی۔“

صوبے میں امن و امان کی صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ محرم الحرام کے مہینے میں قیام امن کے لیے پشاور میں پانچ ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے ہیں لیکن اندرون شہر کو مکمل طور پر سیل کر کے عوامی مشکلات مین مزید اضافہ کردیا گیا ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید