1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوپیک کی ضرورت ہے کس کو؟ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

ہینریک بوئمے / مقبول ملک28 نومبر 2014

تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک نے ویانا میں جمعرات کو اپنے اجلاس میں حسب توقع فیصلہ یہ کیا کہ تیل کی پیداوار کم نہیں کی جائے گی۔ اس پر ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار ہینریک بوئمے پوچھتے ہیں کہ اوپیک کی ضرورت ہے کس کو؟

https://p.dw.com/p/1DwkW
تصویر: picture-alliance/dpa

اوپیک کی ضرورت آخر کس کو ہے اور اس تنظیم کا استحقاق کیا ہے؟ اس سوال کا فوری جواب یہ ہے کہ کسی کو بھی نہیں اور کچھ بھی نہیں۔ دنیا میں کسی اور جگہ ایسا نہیں ہوتا۔ کیا کوئی بین الاقوامی تنظیم یہ کوشش کرتی ہے کہ کاکاؤ یا کافی برآمد کرنے والے ملکوں کے لیے قیمتوں کا تعین کرے۔ نہیں! یہ کام آزاد تجارتی منڈی خود ہی کر لیتی ہے۔

اس عمل کا فائدہ ظاہر ہے کہ سٹے بازوں کو بھی پہنچتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر کاکاؤ یا کافی برآمد کرنے والے ملکوں کا نمائندہ اجارہ داری کا حامل کوئی ادارہ ہوتا تو اس پر صحت مند کاروباری مقابلہ بازی کے نگران بین الاقوامی ادارے بلاتاخیر پابندی لگا دیتے۔ سوال یہ ہے کہ تیل کی قیمتوں کے تعین کے حوالے سے ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟

اس لیے کہ تیل ایک ایسا ذریعہ ہے جو عالمی معیشت کی مشینری کو رواں دواں رکھتا ہے۔ اس لیے کہ تیل کو آج بھی سیاسی دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس لیے بھی کہ ہم ابھی تک یہ بھی نہیں سمجھے کہ ہم ایندھن کے طور پر خام تیل کے عشروں سے جاری بے دریغ استعمال کے ساتھ اس کرہ ار‌ض کا کیا حشر کر رہے ہیں جو بس ایک ہی ہے۔

ایک کی خوشی، دوسرے کی تکلیف

Symbolbild - Erdöl
تصویر: Getty Images/J. Raedle

ان دنوں تیل کے سستا ہونے پر بہت سے لوگ ‌خوش ہیں۔ ڈرائیور، عام صارفین، ٹرانسپورٹر، جہاز راں ادارے اور فضائی کمپنیاں بھی۔ لیکن تیل کی بہت کم قیمت بہت سے حلقوں کے لیے انتہائی پریشانی کا باعث بھی ہے، مثال کے طور پر وینزویلا اور روس کی حکومتوں کے لیے۔

یہ ملک اپنے ریاستی اخراجات کی منصوبہ بندی اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں تیل سے ہونے والی آمدنی کے لیے بہت اونچی قیمتوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ تیل کی کم قیمت کی وجہ سے اس وقت وینزویلا اور روس جیسی ریاستوں کو ان کی آمدنی میں اربوں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے۔

عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے رجحان کی وضاحت مختلف سازشوں کے دعووں کے ساتھ بھی کی جاتی ہے۔ مثلاﹰ سعودی عرب امریکا کو نیچا دکھانا چاہتا ہے، روس کو یوکرائن سے متعلق اس کی متنازعہ سیاست کی سزا دی جا رہی ہے یا پھر مقصد شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کو روکنا ہے، جو تیل بیچ کر اپنی کارروائیوں کے لیے مالی وسائل حاصل کرتے ہیں۔ یہ سب عجیب و غریب دعوے ہیں۔

قصور دراصل عالمی معیشت کی کمزور صورت حال کا ہے۔ تیل کا استعمال، یعنی طلب کم ہے تو قیمت بھی کم ہو گی۔ لیکن پیچیدگی اس طرح پیدا ہوتی ہے کہ نہ تو تیل کے سب سے بڑے برآمد کنندہ ملکوں میں شمار ہونے والا امریکا اوپیک کا رکن ہے اور نہ ہی روس۔ یہی بات اوپیک کو آج کے دور میں گزرے وقتوں کا ادارہ بنا دیتی ہے۔

’بلیک گولڈ‘ کہلانے والا تیل کرہ ارض کے قیمتی خام مادوں میں شمار ہوتا ہے لیکن مستقبل میں ایک دور ایسا بھی آئے گا جو ’تیل کے دور‘ کے بعد کا دور ہو گا۔ اس وقت دنیا کو اپنے مسائل کے حل کی ضرورت ہے، اور جس کی ضرورت بالکل نہیں، وہ اوپیک ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید