1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کی پرخطر خارجہ پالیسی، ان کی اپنی شرائط پر

عصمت جبیں22 دسمبر 2014

باراک اوباما اپنی مبینہ طور پر محتاط خارجہ پالیسی کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ لیکن کیوبا کے ساتھ خفیہ مذاکرات اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ اگر مذاکراتی عمل کنٹرول میں رہا تو وہ پرخطر فیصلے کرنے پر بھی تیار ہیں۔

https://p.dw.com/p/1E8eI
تصویر: C.Somodevilla/Getty Images

یہ وہی مذاکراتی سوچ ہے جو امریکی صدر باراک اوباما نے ایران کے ساتھ بات چیت میں بھی اپنائی اور تہران کے ساتھ اس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام سے متعلق عبوری معاہدے کو یقینی بنایا۔ اس کے علاوہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق چین کے ساتھ جس امریکی معاہدے کا اعلان گزشتہ مہینے کیا گیا، وہ بھی باراک اوباما کی اسی طرح کی مذاکراتی پالیسی کا نتیجہ تھا۔

یہ وہ سفارتی کامیابیاں ہیں جو امریکی صدر کے خلاف دیگر بین الاقوامی امور کے سلسلے میں لگائے جانے والے الزامات کا کسی حد تک جواب دے سکتی ہیں۔ باراک اوباما پر کمزور، ناکافی اور غیر مؤثر ردعمل کے سلسلے میں جن دیگر تنازعات کی وجہ سے الزامات لگائے جاتے ہیں، ان میں یوکرائن کے خلاف روس کی جارحیت بھی شامل ہے اور شام اور عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسند گروپ کو ملنے والی کامیابیاں بھی۔

امریکی صدر نے اس سال کے دوران اپنی آخری پریس کانفرنس میں گزشتہ جمعے کے روز کہا تھا کہ امریکا دنیا بھر میں اپنا قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے۔ اس موقع پر باراک اوباما نے اس اعلان کا حوالہ بھی دیا کہ امریکا پانچ عشروں سے بھی زائد عرصے کے بعد کیوبا کے ساتھ اپنے معمول کے سفارتی تعلقات بحال کر رہا ہے۔

Reaktionen von Exilkubanern in Miami auf die Annäherung von USA und Kuba
’باراک اوباما کا ایران اور کیوبا کے معاملے میں سفارتی خطرات مول لینا کامیاب رہا‘تصویر: Joe Raedle/Getty Images

اس موقع پر صدر اوباما نے کہا تھا، ’’ہم کیوبا کے عوام کے ساتھ اپنے تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کر رہے ہیں۔‘‘ امریکا کے کیوبا کے ساتھ خفیہ مذاکرات بھی واشنگٹن کی تہران اور بیجنگ کے ساتھ درپردہ مکالمت کی طرح اعلیٰ امریکی اہلکاروں کے ایک ایسے چھوٹے سے گروپ نے کیے جو اس دوران بار بار خاموشی سے مشاورت کے لیے واپس واشنگٹن آتے جاتے رہے۔

ایران کے ساتھ امریکی مذاکرات واشنگٹن میں محکمہ خارجہ کے اہلکاروں ولیم برنز اور جیک سلیوان نے کیے، جو اب اوباما انتظامیہ کا حصہ نہیں رہے۔ چین کے ساتھ بات چیت کے لیے اہم ترین امریکی شخصیت وائٹ ہاؤس کے مشیر جان پوڈیسٹا تھے۔ اسی طرح وائٹ ہاؤس کے کیوبا مذاکراتی مشن کی سربراہی بین رہوڈز اور ریکارڈو زُونیگا نے کی۔ بین رہوڈز وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے نائب مشیر ہیں اور ریکارڈو زُونیگا لاطینی امریکا کے لیے امریکی صدر کے سینئر مشیر۔

ان تمام مذاکرات کے لیے امریکی نمائندوں کو صدر اوباما کے قریبی رفقائے کار میں سے چنا گیا تھا، جس کا مطلب یہ پیغام دینا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کہیں گے، وہ امریکی صدر کی طرف سے مکمل اتھارٹی کے ساتھ کہیں گے۔ یہ طریقہ کار کام آیا اور باراک اوباما کو سفارتی کامیابیاں بھی ملیں۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق باراک اوباما کا ایران اور کیوبا کے معاملے میں سفارتی خطرات مول لینا کامیاب رہا۔ لیکن یوکرائن کے تنازعے اور شام اور عراق کی صورت حال سمیت کئی امور پر امریکی صدر پر کم عملی کے الزام لگائے جاتے ہیں۔ تاہم ان امور پر اوباما کو کوئی بڑا سفارتی خطرہ مول لینے سے پہلے بہت زیادہ سوچنا ہو گا۔