اوباما کا مشرق بعید کا دورہ اور علاقائی کشیدگی
23 اپریل 2014مبصرین کا کہنا ہے کہ جاپان اور جنوبی کوریا کے دورے کے دوران علاقائی کشیدگی کو سربراہی اجلاسوں کے ایجنڈے پر خاص طور پر فوقیت حاصل رہے گی۔ اگر ایک طرف جنوبی کوریا اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی برقرار ہے تو جاپان اور چین کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔ امریکی صدر ایسے موقع پر جاپان پہنچے ہیں جب ڈیڑھ سو کے قریب جاپانی اراکینِ پارلیمنٹ نے متنازعہ جنگی مزار پر حاضری دی ہے۔ اسی متنازعہ مزار پر جاپانی وزیراعظم بھی کچھ دن قبل حاضری دے چکے ہیں۔ اِس مزار پر چین اور جنوبی کوریا سخت موقف رکھتے ہیں۔
امریکی صدر کی ٹوکیو آمد سے ایک دو روز قبل چین نے ایک جاپانی مال بردار بحری جہاز کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ چین اور جاپان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کا یہ نیا پہلو ہے۔ اس جہاز کو تحویل میں لینے کی وجہ چین کے بندرگاہی شہر شنگھائی کی عدالت کا حکم ہے کہ سن 1930 میں چینی علاقوں پر قبضے کے دوران جاپان نے بندرگاہ کے استعمال کا کرایہ ادا نہیں کیا تھا۔ چین اور جاپان کے درمیان مسلسل کشیدگی کا باعث بعض چھوٹے جزائر کی ملکیت کا تنازعہ بھی ہے جو کسی طور پر ٹھنڈا نہیں ہو رہا۔ دوسری جانب امریکی صدر کے دورے پر کمیونسٹ ملک شمالی کوریا نے بھی سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
جاپان میں امریکی صدر اور وزیراعظم شینزو آبے آج بدھ کی شام رات کے کھانے پر ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست ملاقات کریں گے۔ یہ ملاقات ٹوکیو کے پر رونق علاقے گِنزا کے ایک سُوشی ریسٹورانٹ میں ہو گی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق عشائیے پر امریکی صدر میزبان ملک کے لیڈر پر واضح کریں گے کہ امریکا اپنی نگاہ اور فوکس مشرق پر رکھے ہوئے ہے۔ اِس کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے کہ موجودہ دورے کے دوران امکاناً امریکا کی جانب سے متنازعہ جزائر کی ملکیت پر جاپانی مرقف کی حمایت ہو سکتی ہے۔
امریکی صدر کا موجودہ مشرق بعید کا دورہ آٹھ دنوں پر پھیلا ہوا ہے۔ جاپان کے بعد وہ جنوبی کوریا، ملائیشیا اور فلپائن بھی جائیں گے۔ سن 1966 کے بعد ملائیشیا کا دورہ کرنے والے وہ پہلے امریکی صدر ہیں۔ اُس وقت سابق صدر لِنڈن بی جانسن نے ملائیشیا کا دورہ کیا تھا۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اوباما ملائیشیا کے وزیراعظم نجیب رزاق کے ساتھ ملاقات کے دوران حکومت کا اپوزیشن کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر اپنی تشویش ظاہر کر سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا میں قیام کے دوران وہ خاتون صدر پاک گُون ہے (Park Geun-Hye ) سے شمالی کوریا کے ساتھ پائی جانے والی کشیدگی پر بات کرتے ہوئے امریکی عزائم کا اعادہ کریں گے۔