1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اوباما کا ایسٹونیا کا دورہ

عدنان اسحاق2 ستمبر 2014

امریکی صدر باراک اوباما مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے برطانوی علاقے ویلز آ رہے ہیں۔ اس دوران وہ مشرقی یورپی ملک ایسٹونیا میں بھی مختصر قیام کریں گے۔

https://p.dw.com/p/1D5Dw
تصویر: DW/F.Taube

امریکی صدر باراک اوباما کے ایسٹونیا کے دورے کی علامتی حیثیت ایک جانب تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ اس دوران تالن حکومت اوباما سے ملک میں نیٹو کی موجودگی میں اضافہ کرنے کی درخواست کر سکتی ہے۔ ان کے اس مطالبے پر کس حد تک عمل کیا جا سکتا ہے؟

امریکی صدر باراک اوباما کل بدھ تین ستمبر کو ایسٹونیا پہنچ رہے ہیں۔ مشرقی یوکرائن میں جاری بحران کے تناظر میں اوباما کے اس دورے کو ایسٹونیا سمیت دیگر بالٹک ریاستوں کے لیے امریکا اور نیٹو کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وہ روسی صدر ولادی میر پوٹن کو واضح طور پر یہ پیغام بھی دینا چاہتے ہیں کہ وہ اِن ممالک میں دخل اندازی کا خیال بھی ذہن سے نکال دیں۔ اس دوران یورپ میں سلامتی کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اوباما نیٹو کے دیگر رکن ممالک کی توجہ خصوصی طور پر ایسٹونیا کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کریں گے۔اوباما نیٹوکے منصوبوں میں ایسٹونیا کے کردار کو اس اتحاد کے لیے ایک مثال کے طور پر دیکھتے ہیں۔

USA NATO Erweiterung Baltikum Bulgarien, Rumänien, Slowakei, Slowenien Feier in Washington
تصویر: picture-alliance/AP

ابھی ایک ہفتے قبل ہی یوکرائن کی فوج نے ملک کے مشرقی حصے میں اسلحہ و بارودکی ایک بڑی تعداد قبضے میں لی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ وہ عسکری ساز و سامان ہے، جو روسی افواج کے استعمال میں ہے۔ اس دوران حاصل ہونے والے دستاویزات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ اسلحہ روس نواز باغیوں کے نہیں بلکہ وہاں موجود روسی افواج کے استعمال میں تھا۔ روسی افواج نے ان خبروں کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں کییف حکام نے ماسکو حکومت پر مداخلت کا الزام عائد کیا ہے۔ ماہرین کے خیال میں یوکرائن میں سامنے آنے والے ان واقعات کے بعد ایسٹونیا، لیٹویا، لتھوانیا اور پولینڈ کی حکومتوں کا فکر مند ہونا قابل فہم ہے۔ صورتحال کو بھانپتے ہوئے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے موسم بہار میں ہونے والے اپنے اجلاس میں مشرقی یورپی ارکان پر خصوصی توجہ دینے اور ان ممالک میں نیٹو افواج کی موجودگی کو بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ امید ہے کہ اس ہفتے ویلز میں ہونے والے اجلاس میں نیٹو رہنما اس حوالے سے ایک مفصل پیکج کی منظوری دیں گے۔

تاہم اس سلسلے میں معاملات اُس وقت کچھ پیچیدہ ہو گئے، جب اگست کے وسط میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے لیٹویا کے دورے کے موقع پر خطے میں نیٹو کے جنگجو دستوں کی مستقل موجودگی کے فیصلے کو ناقابل عمل قرار دے دیا تھا۔ نیٹو سربراہی اجلاس سے قبل مغربی دفاعی اتحاد کے سیکرٹری جنرل آندرس فوگ راسموسن اور ایسٹونیا کے سیاستدانوں نے کہا ہے کہ وہ کسی ایسے پیکج کے حوالے سے پر امید ہیں۔ ماہرین کے مطابق اوباما کے دورہ تالن کو اسی وقت نتیجہ خیز قرار دیا جا سکتا ہے، جب وہ تعاون کی یقین دہانیوں کے حوالے سے ایسٹونیا کی توقعات کوحقیقت کے روپ میں ڈھالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔