1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا کے ساتھ قریبی تعلق کے منتظر ہیں، ٹونی ایبٹ

ندیم گِل23 جولائی 2014

آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے کہا ہے کہ وہ انڈونیشیا کے نو منتخب صدر جوکو ودودو کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔ جاسوسی کے الزامات پر دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1CgtO
Tony Abbott
تصویر: Getty Images

آسٹریلیا کے وزیر اعظم ٹونی ایبٹ نے بدھ 22 جولائی کو ودودو کو انتخابی فتح پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمسایہ ملک انڈونیشیا کے ساتھ تعلقات آسٹریلیا کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: ’’آسٹریلوی حکومت ان کے (ودودو) کے ساتھ قریبی تعلق کی منتظر ہے۔‘‘

ایبٹ کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات ’انتہائی فائدہ مند‘ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: ’’ہم وسیع تر مشترکہ مفادات اور چیلنجز کی بنیاد پر تعاون کی ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔‘‘

آسٹریلوی وزیر اعظم نے انڈونیشیا کے انتخابات کو دنیا کی اس تیسری بڑی جمہوری طاقت کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا۔ انہوں نے صدر یودھویونو کی خدمات کو بھی سراہا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ برس جاسوسی کے الزامات پر دونوں ملکوں کے درمیان دُوریاں پیدا ہو گئی تھیں۔ گزشتہ برس نومبر میں کینبرا اور جکارتہ حکومتوں کے تعلقات اس وقت برسوں میں پہلی مرتبہ انتہائی نچلی سطح پر چلے گئے تھے جب آسٹریلوی جاسوسوں کی جانب سے صدر سسیلو بامبانگ یودھویونو اور ان کے قریبی حلقوں کے ٹیلیفونز کی نگرانی کرنے کی رپورٹیں سامنے آئیں۔

Indonesien Präsidentschaftswahlen Joko Jokowi Widodo 22.07.2014
انڈونیشیا کے نو منتخب صدر جوکو ودودوتصویر: Getty Images

جکارتہ نے اس واقعے کو ناقابلِ تصور قرار دیتے ہوئے کینبرا میں تعینات اپنے سفیر کو عارضی طور پر واپس طلب کر لیا تھا جبکہ آسٹریلیا کے ساتھ متعدد شعبوں میں تعاون بھی معطل کر دیا گیا تھا۔ اس میں انسانی اسمگلنگ کا معاملہ بھی شامل تھا جو دونوں ملکوں کے لیے انتہائی نازک ہے۔

جکارتہ حکومت کشتیوں کے ذریعے آسٹریلیا پہنچنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے آسٹریلیا کی عسکری کارروائیوں پر بھی نالاں تھی۔ ان میں سے بیشتر لوگ انڈونیشیا کے راستے ہی آسٹریلیا پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جوکو ودودو انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ کے گورنر ہیں اور وہ حالیہ صدارتی انتخابات میں فاتح رہے ہیں۔ انہیں سابق جنرل پرابووو سوبیانتو کا سامنا تھا اور دونوں کے درمیان سخت مقابلہ رہا۔

ودودو اصلاحات پسند رہنما ہیں اور وہ انڈونیشیا کو نئی سیاسی شناخت دینا چاہتے ہیں جبکہ سوبیانتو کا شمار سخت گیر رہنماؤں میں ہوتا ہے۔

سوبیانتو نے ودودو کی ٹیم پر دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہوئے اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے اس بنیاد پر انتخابی دوڑ سے علیحدہ ہونے کا اعلان بھی کیا تھا۔ تاہم غیرجانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صدارتی انتخابات بڑی حد تک صاف و شفاف ہوئے ہیں۔