1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشیا میں فوج سویلین معاملات میں اپنا اثر بڑھاتی ہوئی

عاطف توقیر25 مئی 2015

ایک تھنک ٹینک کی جانب سے جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ انڈونیشیا میں فوج سویلین شعبوں میں اپنے کردار میں مسلسل اضافہ کر رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FWBP
تصویر: Reuters/Darren Whiteside

انڈونیشیا میں کئی دہائیوں تک برسراقتدار رہنے والے فوجی آمر سُہارتو کے بعد ملک میں جمہوری اقدار نے فروغ پایا تھا۔ تاہم گزشتہ برس برسراقتدار آنے والے صدر جوکو وِدودو کے دور میں ایک مرتبہ پھر فوج سویلین معمولاتِ زندگی میں اپنا کردار مسلسل بڑھا رہی ہے۔

پالیسی انالیسٹ آف کانفلِکٹ (IPAC) نامی تھنک ٹھینک نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ فوج ملکی سویلین اداروں پر اپنی گرفت مسلسل مضبوط کر رہی ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے، ’’جتنا لمبا عرصہ یہ ایسی سرگرمیوں میں مصروف رہے گی، اتنا ہی گہرا سیاسی اثر پیدا ہو گا اور پھر انہیں ان اداروں سے الگ کرنا اتنا ہی دشوار بھی ہو گا، خصوصاﹰ انہیں سویلین قوانین اور مقدمات سے استثناء دے کر ریاستی اداروں میں داخل کرنا۔‘

Bildergalerie Weihnachten Weltweit Indonesien 2014
انڈونیشیا میں فوج سویلین شعبوں میں اپنے اثرورسوخ کو مسلسل بڑھا رہی ہےتصویر: REUTERS/Beawiharta

اس رپورٹ کے مطابق انڈونیشیا میں مسلح افواج نے متعدد وزارتوں کے ساتھ معاہدے کر کے رفتہ رفتہ یہ اجازت حاصل کر لی ہے کہ وہ کھادوں کی تقسیم، جیلوں کی حفاظت اور عوامی و ریاستی بنیادی ڈھانچے کے قیام جیسے منصوبوں میں شامل ہو جائیں۔

رواں ماہ ملکی فوج نے انسداد منشیات کی قومی ایجنسی کے ساتھ ایک یادداشت پر اتفاق کر لیا ہے، جس کے تحت صدر وِدودو کی حمایت یافتہ ایک انسداد منشیات کی مہم میں فوج شامل ہو گی۔ صدر وِدودو نے منشیات کے خلاف ملکی جنگ کا اعلان کر رکھا ہے اور اس سے متعلقہ جرائم میں ملوث ملکی و غیرملکی افراد کو دی جانے والی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

تھنک ٹینک کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرپشن اور غیرمقبول پولیس فورس سمیت متعدد تنازعات میں گھرے صدر کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رفتہ رفتہ سویلین اداروں میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔

انڈونیشیا میں شہری اداروں میں فوجی اثرورسوخ میں اضافے پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے بھی مسلسل تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم العارف کا کہنا ہے کہ صدر پارلیمان میں کم حمایت کے تناظر میں غالباﹰ فوج کی حمایت حاصل کرنے کے لیے اس معاملے سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

اس تنظیم کے مطابق، ’’ہمیں خوف ہے کہ ماضی کی طرف تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ پھر شروع ہو سکتا ہے۔‘‘

خیال رہے کہ فوجی آمر سُہارتو کے کئی دہائیوں پر محیط دورِ حکومت میں ملکی مسلح افواج انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہیں۔ سن 1998ء میں سہارتو کی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج کو سویلین اداروں سے الگ کیا گیا اور ملک میں جمہوری اقدار کی بنیاد پڑی۔

اس کے بعد حاضر سروس فوجیوں کی بطور صوبائی گورنر، ارکان پارلیمان اور ارکان کابینہ تقرریوں پر بند باندھے گئے اور فوج کے کردار کو ملکی دفاع تک محدود کیا گیا۔