1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انڈونیشی فوج کا انسدادِ دہشت گردی آپریشن

عابد حسین20 اپریل 2015

سب سے زیادہ مسلمان آبادی والے ملک انڈونیشیا کی فوج کے سربراہ نے کہا ہے کہ وہ انڈونیشیا میں اسلامک اسٹیٹ کو قدم جمانے کا موقع نہیں دیں گے۔ اس آپریشن میں توجہ سُلاویسی جزیرے پر مرکوز کی جائے گی۔

https://p.dw.com/p/1FB8Y
تصویر: Reuters

انڈونیشیا کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ڈاکٹر موئل ڈوکو نے دارالحکومت جکارتہ کے نواح میں ملکی فوج کے صدر دفتر میں نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ اُن کی فوج اپنے ملک میں اسلامک اسٹیٹ کو پنپنے یا قدم جمانے کا کوئی موقع نہیں دے گی۔ سُلاویسی جزیرے میں شروع کیے گئے آپریشن کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا کہ پولیس کی مدد کی جا رہی ہے تا کہ بنیاد پرستوں کا کھوج لگا کر انہیں گرفتار کیا جا سکے۔

انڈونیشیا کی حکومت کو ایسے خدشات لاحق ہیں کہ بعض انڈونیشی انتہا پسند مسلمان جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ وابستگی کا اظہار کرنے لگے ہیں اور ایسے امکانات بھی سامنے آئے ہیں کہ شام اور عراق سے تربیت حاصل کرنے والے انڈونیشی انتہا پسند واپس آنے کے بعد جہادیوں کے اڈے قائم کرنے کی کوشش میں تھے۔ مشرقی جزیرے سُلاویسی میں فوجی آپریشن اکتیس مارچ سے شروع کیا جا چکا ہے۔ انڈونیشی فوج کے سربراہ نے آپریشن سے اب تک حاصل ہونے والے مقاصد کی تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی گرفتاریوں یا ہلاکتوں کا ذکر کیا ہے۔ انڈونیشیا میں انسدادِ دہشت گردی کا یہ پہلا باضابطہ آپریشن ہے، جس میں فوج کے کمانڈوز، خفیہ اداروں کے ایجنٹس اور پولیس کے دستے شامل ہیں۔

Indonesia Asien Afrika Konferenz Jakarta Indonesia's Armed Forces General Moeldoko Polizei Chef Badrodin
انڈونیشیا کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل ڈاکٹر موئل ڈوکو اپنے کمانڈوز سے ملاقات کرتے ہوئےتصویر: Reuters/Antara Foto/Sigid Kurniawan

سن 2000 سے انڈونیشیا کو چند انتہا پسند گروہوں کا سامنا ہے۔ پولیس مسلسل ان شدت پسندوں کے تعاقب میں ہے اور کئی ٹھکانوں کو ختم کرنے کے چھوٹے چھوٹے کامیاب آپریشن مکمل کر چکی ہے۔ حالیہ مہینوں کے دوران حکومت نے چند افراد کو حراست میں لیا ہے، جن پر شبہ کیا گیا تھا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں سے شام میں تربیت حاصل کر کے واپس آئے ہیں۔ سن 2002 میں انتہا پسندوں نے انڈونیشی جزیرے بالی کے ایک نائٹ کلب پر خونی حملہ کر کے 200 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔

کہا جا رہا ہے کہ سن 2009 میں جکارتہ کے ایک ہوٹل پر کیے گئے بم حملوں کے بعد ہی اِس آپریشن کی پلاننگ کر لی گئی تھی۔ فوج کے سربراہ کے مطابق وسطی سلاویسی کے پہاڑی علاقے میں فوجی آپریشن تقریباً اپنی منزل کو پہنچ چکا ہے لیکن کئی مقامات پر فوج ابھی بھی تلاشی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل ڈاکٹر موئل ڈوکو نے بحیرہ جنوبی چین میں پیدا شدہ کشیدگی پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سُلاویسی جزیرہ انڈونیشیا کے چار بڑے سُنڈا جزائر میں سے ایک ہے۔ یہ دنیا کا گیارہواں بڑا جزیرہ ہونے کے علاوہ گنجان آباد بھی ہے۔ ایک کروڑ سے زائد آبادی والے اِس جزیرے کی جغرافیائی ہیت خاصی پیچیدہ ہے۔ زمینی پیچیدگی اور گھنے جنگلات کی وجہ سے یہ علاقہ انتہا پسندوں کی نگاہوں میں ہے۔