انقلابی طیارہ پروڈکشن کے دوسرے مرحلے میں
1 اپریل 2014اس طیارے کی تیاری رواں ماہ دوسرے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس کے پرَ کے ایک کونے میں سلنڈر نما ایک پنکھا لگا ہوا ہے، اسی لیے اس طیارے کو ’فین وِنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس مرحلے میں اسے پرکھا جائے گا اور اس پر تجزیے ہوں گے ۔ یہ سلسلہ بیلجیئم میں چار سے چھ ماہ تک جاری رہے گا۔ یہ طیارہ امریکی نژاد موجد پیٹرک پیبلز کی تخلیق ہے اور اسے حال ہی یورپی یونین کی جانب سے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مَد میں دو سال کے عرصے کے لیے چھ لاکھ یورو کی گرانٹ دی گئی ہے۔ اس مالی مدد میں جرمنی کی زارلانڈ یونیورسٹی، جرمن ایروسپیس سینٹر اور فان کارمان انسٹیٹیوٹ فار فلیوڈ ڈائنامکس (بیلجیئم) بھی حصے دار ہے۔ پیبلز کی کمپنی ’فین وِنگ‘ برطانیہ میں قائم ہے۔
یورپی یونین کی معاونت سے چلنے والے اس منصوبے کو SOAR یعنی ڈی سٹربیوٹِڈ اوپن روٹور ایئرکرافٹ کہا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد پَر کی ساخت اور ہیئت کو بہتر بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی فُل سائز کارگو لفٹر کو ممکن بنانے کے لیے بھی کام کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس وقت اس طیارے کا ایک بڑا ماڈل دستیاب ہے جسے ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلایا جاتا ہے۔ اس کے دو ورژن بنانے پر کام ہو رہا ہے۔ ایک مسافر بردار جس میں تقریباﹰ ساٹھ سے سترّ افراد کی گنجائش ہو اور دوسرا کارگو جو کم دورانیے کی پرواز کے ساتھ آٹھ ٹن تک سامان لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
فین وِنگ کے پرَ کی نوک پر لگے انجن وِنگ پر لگی چرخی کے ساتھ جڑے پنکھوں کے ساتھ بان کو گھماتے ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق اس کے اوپر اٹھنے کی صلاحیت ہیلی کاپٹر کے مقابلے میں تین گُنا زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ کم وقت میں ٹیک آف اور لینڈنگ کرے گا جبکہ اس کی پرواز بھی زیادہ پرسکون ہو گی۔
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ فین وِنگ ایک ہیلی کاپٹر کے برابر ایندھن استعمال کرتے ہوئے اس سے دُگنے وقت تک پرواز کر سکے گا۔ زارلانڈ یونیورسٹی کے محققین اس طیارے کے اُوپر اٹھنے کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت مرکزی نکتہ یہ ہے کہ آیا مستقبل کے ماڈل میں پنکھوں کو فِکس رکھا جائے یا برقی طریقے سے انہیں ہلایا جھلایا جا سکے جو قدرے مہنگا طریقہ ہوگا۔
خیال رہے کہ فین وِنگ لمیٹڈ کمپنی کی بنیاد پیبلز کی برطانوی اہلیہ نے 1999ء میں رکھی تھی جو کمپنی کے مالیاتی امور کی نگرانی کرتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا شعبہ پیبلز کی ذمہ داری ہے۔