انسانی سمگلرز اب لوگوں کو اغواء کر کے بیچنے لگے
22 اکتوبر 2014جب میائے تیکنف کے نواح میں اپنے کام کی جگہ پر پہنچا تو ایک شخص نے اسے پینے کے لیے کوئی مشروب دیا جس کے پیتے ہی اس کی پلکیں بوجھل ہونے لگیں اور سر چکرانے لگا۔ جب اس کی آنکھ کُھلی تو اندھیرا چھا چکا تھا۔ وہ وقت کا احساس کھو چکا تھا۔
دو بنگلہ دیشی افراد نے اسے اور سات دیگر لوگوں کو زبردستی ایک چھوٹی کشتی میں سوار کرایا اور وہاں انہیں باندھ دیا گیا جب کہ ان کی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دی گئی۔ اس چھوٹی کشتی کا سفر سمندر میں لنگر انداز ایک بڑے بحری کے پاس ختم ہوا۔ ان لوگوں کو جہاز کے ایک اندھیرے حصے میں پھینک دیا گیا جہاں ان پر پہرے کے لیے گارڈز موجود تھے۔ وہاں پر کئی ایسے لوگ بھی موجود تھے جو کئی ہفتوں سے اس جہاز پر قید تھے۔
یہ جہاز تھائی لینڈ کے سمندر کی جانب بڑھنے لگا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی گزشتہ برس کی رپورٹوں کے مطابق تھائی لینڈ میں انسانی سمگلرز جنگلوں میں قائم کیے گئے اپنے کیمپوں میں ایسے ہزاروں افراد کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ ان افراد کو اس وقت تک وہاں رکھا جاتا ہے جب تک ان کے رشتہ دار ان کی رہائی کے لیے تاوان کی رقم ادا نہیں کر دیتے۔
بنگلہ دیشی اور روہنگیا کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے ایسے ہی افراد سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ایشیا کے مصروف ترین انسانی اسمگلنگ کے روٹس میں سے ایک میں اسمگلرز اب اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں۔ قبل ازیں لوگ اپنی مرضی سے اسمگلنگ بوٹس پر سوار ہوتے تھے تاکہ وہ غیر قانونی طور پر ملائیشیا پہنچ سکیں جہاں انہیں کام اور بہتر زندگی میسر آ سکے۔ تاہم اب لوگوں کو اغواء کر کے زبردستی چھوٹی کشتیوں میں ڈال کر سمندر میں بنگلہ دیشی پانیوں کے باہر لنگر انداز جہازوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ ملکی پانیوں سے باہر موجود ان بحری جہازوں کے خلاف بنگلہ دیشی کوسٹ گارڈز کسی قسم کی کارروائی کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
بنگلہ دیشی کوسٹ گارڈ کے لیفٹیننٹ کمانڈر محمد عاشق محمود کے مطابق ان کی طرف سے چھوٹی کشتیوں کی تلاشی لی جاتی ہے تاکہ اس طرح انسانی اسمگلنگ کی راہ روکی جا سکے۔ اقوام متحدہ کی مہاجرین سے متعلق ایجنسی UNHCR کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران بنگلہ دیشی حکام نے 700 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جن میں اسمگلرز اور کشتیوں کے ملاح بھی شامل ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ ارکان Arakan پراجیکٹ سے منسلک کِرس لیوا Lewa کے مطابق 2013ء کے دوران ریکارڈ چار لاکھ روہنگیا مسلمان تھائی لینڈ میں انسانی اسمگلرز کی طرف سے قائم کردہ کیمپوں سے ہو کر گزرے۔ یہ اسمگلرز ایسے لوگوں کو اس وقت تک رہا نہیں کرتے جب تک ان افراد کے رشتہ ملائیشیا کی سرحد پر تاوان کی رقم ادا نہیں کر دیتے۔
میائے اور اس کے ساتھی بنگلہ دیشی قیدیوں کے سفر کا اختتام بھی شاید ایسے ہی کسی کیمپ میں جا کر ہوتا مگر جب ان لوگوں کو تھائی لینڈ کے ایک جزیرے Phang Nga کے قریب رات کی تاریکی میں پہنچایا گیا تو ملکی حکام کو اس کی اطلاع پہنچ گئی اور گرفتاری کے ڈر سے انہیں وہاں لانے والے انسانی اسمگلرز فرار ہو گئے اور یوں افسر میائے اور اس کے ساتھی تھائی حکام کے ہاتھ لگ گئے۔ تاہم تھائی حکام ابھی بھی دیگر 190 افراد کی تلاش ہے جو ممکنہ طور پر اسی جہاز پر وہاں پہنچائے گئے تھے جس پر میائے کو لایا گیا تھا۔