1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی حقوق کی ابتر صورتحال، پاکستانی کمیشن کی سالانہ رپورٹ

تنویر شہزاد، لاہور17 اپریل 2015

انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن کا کہنا ہے کہ سال دو ہزار چودہ کے دوران ملک میں انسانی حقوق کی مجموعی صورتحال بہت تشویشناک رہی۔ کمیشن نے یہ بات اپنی تازہ ترین سالانہ رپورٹ میں کہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FAAq
دائیں سے بائیں: زہرہ یوسف، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمٰنتصویر: DW/T. Shahzad

جمعہ سترہ اپریل کے روز پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں اس ادارے کی سالانہ رپورٹ ’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال 2014‘ کے اجراء کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن کے رہنما آئی اے رحمن کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس ملک میں انسانی حقوق کی پامالی میں اضافہ ہوا، ان حقوق کے تحفظ کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں کمی دیکھی گئی، سویلین رِٹ کمزور ہوئی اور ملکی معاملات میں سکیورٹی فورسز کا عمل دخل بڑھ گیا۔

آئی اے رحمن کے بقول تحفظ پاکستان ایکٹ سے بھی شہریوں کے حقوق متاثر ہوئے اور قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن کے حوالے سے بھی سرکاری طور پر فراہم کی جانے والی خبروں کی تصدیق یا تردید کے لیے آزادانہ اطلاعات نہ مل سکیں۔ اس طرح یہ پتہ چلانا بھی مشکل رہا کہ کسی مسلح واقعے میں مارا جانے والا واقعی کوئی دہشت گرد تھا یا کوئی اور۔ ان کے مطابق حکومت کی توجہ انسانی حقوق کے تحفظ کے بجائے اپنے اختیارات میں اضافے پر مرکوز رہی۔

اس موقع پر کمیشن کی سابقہ چیئرپرسن عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ حکومت ہر سطح پر اپنی space چھوڑ رہی ہے۔ ان کے بقول حکومت اپنے وعدوں کے مطابق لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں بھی ناکام رہی، جس سے نہ صرف معاشی بلکہ سماجی مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے سیاست دانوں کو مشورہ دیا کہ وہ اقتدار کی سیاست چھوڑ کر عوام کی سیاست کریں تاکہ سیاست دان جس انتخابی نظام میں اصلاحات کرنے جا رہے ہیں، کہیں عوام اس نظام ہی سے تنگ نہ آ جائیں۔ ان کے بقول، ’’اگر ایسا ہوا، تو پھر نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔‘‘

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ یہ بات درست نہیں کہ اس وقت ملک میں سنسرشپ نہیں ہے۔ ان کے مطابق سول سوسائٹی کو بھی خفیہ اداروں کی طرف سے معلومات کے حصول کے نام پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حالات میں بہتری کے لیے حزب اختلاف، میڈیا، عوام اور سول سوسائٹی سمیت سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کے بقول عدلیہ ابھی تک آزادانہ طور پر کام کر رہی ہے لیکن اگر سارا بوجھ عدلیہ کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی گئی تو معاملات بہتری کی طرف نہیں جائیں گے۔

Reporter besuchen die Schule in Peschawar 17.12.2014
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ ملکی تاریخ کا سب سے ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملہ ثابت ہواتصویر: AFP/Getty Images/A Majeed

اس سے قبل انسانی حقوق کے پاکستانی کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف نے صحافیوں کو بتایا کہ کسی ایسے سال کا احاطہ کرنا آسان نہیں ہے جس کا آغاز مذہبی اقلیتوں پر حملوں کے ایک باقاعدہ سلسلے سے ہوا ہو اور اختتام بیسیوں نوجوان طالب علموں کے ایسے قتل عام پر، جو ملکی تاریخ میں کسی واحد دہشت گردانہ حملے میں سب سے زیادہ اموات کا باعث بنا ہو۔

سال دو ہزار چودہ کے حوالے سے جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں 1206 دہشت گردانہ حملوں میں 1723 افراد جاں بحق اور 3143 افراد زخمی ہوئے۔ ان حملوں میں سے 26 خود کش حملے تھے۔ فرقہ ورانہ تشدد میں 210 افراد مارے گئے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حراست میں 63 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں تاحال17 لاکھ 93 ہزار مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت پڑے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سال 2014ء میں مذہبی دل آزاری سے متعلق جرائم پر 37 مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے سات مقدمات دفعہ 295 سی کے تحت درج کیے گئے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس پولیو ویکسینیشن ٹیموں کے 45 ارکان بھی مختلف حملوں میں مارے گئے۔

اس رپورٹ کے مطابق پچھلے سال پارلیمنٹ نے دس قوانین منظور کیے۔ یہ تعداد اس سے ایک سال پہلے کے مقابلے میں نصف سے بھی کم تھی۔ اسی سال عدالتوں نے 231 افراد کو موت کی سزائیں سنائیں، سات افراد کو سنائی گئی پھانسی کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔ آج سترہ اپریل تک ملک میں پھانسی پانے والوں کی تعداد 74 تک پہنچ چکی ہے۔

سالانہ رپورٹ کے مطابق 2014ء میں پاکستان میں 14 میڈیا ورکر ہلاک ہوئے اور آزادی اظہار سے متعلق چیلنجز میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حال ہی میں اطلاعات تک رسائی سے متعلق قوانین کے تحت اطلاعات تک رسائی کے لیے جو درخواستیں دی گئیں، ان کا وفاقی حکومت اور بلوچستان اور سندھ کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے کوئی جواب ہی نہیں دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان بھر میں پچھلے سال فرقہ ورانہ تشدد کے 144 واقعات رونما ہوئے۔ سندھ میں ہندوؤں اور ملک کے دیگر علاقوں میں مسیحیوں کی 11 عبادت گاہوں پر حملے کیے گئے۔ اس رپورٹ میں پاکستان عوامی تحریک اور پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی ریلیوں اور ان کے خلاف کارروائیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے سوا باقی تمام صوبے بلدیاتی انتخابات کرانے کی قانونی اور انتظامی ذمے داریاں پوری کرنے سے گریزاں رہے۔ پچھلے سال کے دوران 597 خواتین اور لڑکیاں اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئیں، 828 کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 92 خواتین اور 13 نابالغ لڑکیوں پر انتقاماﹰ تیزاب پھینکا گیا۔

اسی سال سندھ میں خشک سالی اور ناکافی غذا کی وجہ سے تھرپارکر میں 650 بچوں کی اموات ہوئیں، سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد ڈھائی کروڑ رہی، حکومت کم عمر بچوں میں اموات کو روکنے کے حوالے سے اپنا ہدف حاصل نہ کر سکی، ملک میں پولیو کے 306 نئے مریض سامنے آئے جبکہ بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کی بےوطنی کے خاتمے کے لیے بھی کچھ نہ کیا گیا۔

HRCP کی اس سالانہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سال 2014ء میں جو اچھی باتیں سامنے آئیں، ان میں خواتین کی سیاسی عمل میں بہتر شمولیت، عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے نئی قانون سازی، کم عمری کی شادیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات اور غیر ہنرمند افراد کے لیے کم از کم اجرت میں اضافے جیسے اقدامات شامل تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید