امریکی قید میں موجود غیر افغانوں کی تفصیلات کانگریس میں
24 اپریل 2014افغان دارالحکومت کابل کے شمال میں موجود امریکی ملٹری جیل پروان میں ایسے قیدیوں کی تعداد 50 کے قریب ہے۔ امریکی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد ان قیدیوں کا غیر یقینی مستقبل نہ صرف سکیورٹی بلکہ قانونی حوالے سے بھی اوباما انتظامیہ کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔ یہ ویسی ہی صورتحال ہے جیسی امریکا کو گوانتانامو بے کے حوالے سے درپیش ہے۔
گوانتانامو بے کے قیدیوں کی طرح امریکی حکومت پروان جیل میں موجود بعض قیدیوں کی رہائی کو بھی انتہائی خطرناک تصور کرتی ہے۔ تاہم بعض دیگر قیدیوں کا افغانستان کی صورتحال سے براہ راست تعلق واضح نہیں ہے جن میں ایک یمنی شہری ہے جسے بینکاک سے گرفتار کرنے کے بعد اس جیل میں منتقل کیا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ خفیہ دستاویزی معلومات امریکی قانون سازوں کو امریکی فوج کے مشتبہ افراد کو خفیہ طور پر قید میں رکھنے کے نظام کے بارے میں زیادہ وضاحت کے ساتھ جاننے میں معاون ثابت ہوں گی۔ افغانستان میں گزشتہ قریب 13 برس سے جاری جنگ کے دوران ان قیدیوں کو عوامی نظروں سے مخفی رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مشکل سوالات بھی جنم لے سکتے ہیں کہ امریکا کی افغانستان سے واپسی کے بعد ان قیدیوں کو کہاں رکھا جائے۔
امریکی حکام کے مطابق اگر واشنگٹن رواں برس کے بعد پروان جیل کو کھلا نہیں رکھ سکتا تو پھر ایسی صورت میں جو ممکنہ صورتیں ہیں ان میں ان قیدیوں کی امریکا منتقلی اور وہیں مقدمات چلانا، کسی تیسرے ملک کی جیل میں منتقل کیا جانا یا پھر افغانستان میں تشدد کا سلسلہ تھم جانے کے بعد ان کی رہائی جیسے امکانات موجود ہیں۔
رواں برس فروری میں افغان حکومت نے ایسے 65 افغان قیدیوں کو جیلوں سے آزاد کر دیا تھا جنہیں امریکی نگرانی سے افغان حکومت کی نگرانی میں منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم امریکا کی طرف سے افغان حکومت کو واضح طور پر انتباہ کیا گیا تھا کہ ان قیدیوں کا طالبان کے ساتھ تعلق ہے۔ اس پیشرفت کے بعد امریکی قانون سازوں کی طرف سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔