1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی بچوں میں ’فراریت‘ بڑھتی ہوئی

عاطف بلوچ1 اپریل 2014

امریکی حکومت کے تازہ اندازوں کے مطابق ملک ميں ہر اڑسٹھ ميں سے ايک بچہ ’فراریت‘ کی کيفيت کا شکار ہے۔ امريکا ميں پچھلے دو برسوں کے دوران اس ذہنی کيفيت ميں مبتلا بچوں کی تعداد ميں تيس فيصد کا اضافہ ريکارڈ کيا گيا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BZMi
تصویر: picture alliance/AP Images

اپنے آپ ميں مکمل طور پر گم رہنے اور بيرونی دنيا سے ہم آہنگ نہ ہونے يا رابطہ نہ کرنے کی ذہنی کيفيت کو آٹزم یا فراریت کہا جاتا ہے اور يہ کيفيت عموما بچپن کا ایک حصہ ہی ہوتی ہے تاہم اس میں شدت کی صورت میں یہ ایک بیماری بن جاتی ہے۔ امريکی شہر اٹلانٹا ميں قائم ’دا سينٹر فار ڈيزيز کنٹرول اينڈ پريوينشن‘ نے ابھی حال ہی ميں اس ذہنی کيفيت کے حوالے سے تازہ اعداد و شمار جاری کيے، جن کے مطابق اس وقت امريکا ميں اکيس برس سے کم عمرکے قريب 1.2 ملين افراد اس کيفيت سے متاثر ہيں۔

دو سال پہلے يہ ہر اٹھاسی ميں سے ايک شخص اس کیفیت کا شکار تھا، جس کے تحت اُس وقت تقريبا ايک ملين افراد آٹزم سے متاثر تھے۔

Kinder Autismus Computerfigur Andy
آٹزم کی وجوہات کا تاحال تعين نہيں ہو پايا ہےتصویر: Topcliffe Primary School/London Knowledge Lab

تاہم طبی ماہرين کا يہ بھی کہنا ہے کہ اعداد و شمار ميں اس اضافے کا مطلب بيماری يا کيفيت ميں مبتلا افراد کی تعداد ميں اضافہ نہيں۔ اعداد و شمار ميں اضافہ سماجی اور طبی رويوں ميں تبديلی کے سبب آيا ہے۔ طبی ماہرين اب پہلے کے مقابلے ميں اضافی کيسز ميں آٹزم کی تشخيص کرنے لگے ہيں، خواہ بچوں ميں اس ذہنی کيفيت کی علامات قدرے کم نوعيت کی ہوں۔

آٹزم کی وجہ کا تاحال تعين نہيں ہو پايا ہے اور نہ ہی اس کی تشخيص کے ليے خون کا يا کسی اور قسم کا کوئی ٹيسٹ موجود ہے۔ يہی وجہ ہے کہ اس ذہنی مرض کی تشخيص محض بچوں کے رويوں سے کی جاتی ہے۔ ’دا سينٹر فار ڈيزيز کنٹرول اينڈ پريوينشن‘ کے ماہرين کے مطابق اگرچہ اس تعداد ميں اضافے کا تعلق ڈاکٹروں کی جانب سے تشخيص کے عمل ميں اضافے سے ہے تاہم بيماری ميں حقيقی اضافے کو بھی خارج از امکان قرار نہيں ديا جا سکتا۔

’فراریت‘ پر شائع ہونے والی يہ تازہ رپورٹ اس مخصوص حوالے سے کی جانے والی اب تک کی سب سے تفصيلی بتائی گئی ہے۔ اعداد و شمار جمع کرنے کے ليے محققين نے سن 2010 ميں امريکا کی گيارہ مختلف رياستوں سے ڈيٹا اکھٹا کيا۔ رپورٹ ميں آٹھ سالہ بچوں پر توجہ مرکوز رکھی گئی کيونکہ يہی وہ عمر ہے، جس ميں عام طور پر مرض کی تشخيص ہوتی ہے۔

رپورٹ کے اجراء کے بعد امريکی اکيڈمی برائے امراض اطفال نے ايک بيان جاری کيا، جس ميں اس بات پر زور ديا گيا ہے کہ اس مرض کے حوالے سے تحقيق ميں اضافی اقدامات کی ضرورت ہے اور اعداد و شمار کو نظر انداز نہيں کيا جانا چاہيے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی متفقہ طور پر دو اپريل کو ’ورلڈ آٹزم اويئرنس ڈے‘ قرار دے چکی ہے۔ اس دن کو منائے جانے کا مقصد اس ذہنی کيفيت کے حوالے سے شعور اور آگہی کو پھيلانا ہے۔