1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی اسلحہ افغان طالبان کے ہاتھ لگنے کا اندشیہ

عاطف بلوچ29 جولائی 2014

واشنگٹن اور کابل حکومتیں ایسے بہت سے اسلحے کا سراغ نہیں لگا سکی ہیں، جو امریکا کی طرف سے افغانستان کو مہیا گیا ہے۔ یوں ایسے خدشات پیدا ہو گئے ہیں کہ یہ اسلحہ طالبان کے ہاتھوں جا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Ckw2
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکی حکومت کی طرف سے جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغان حکومت کو فراہم کیے گئے اسلحے کی ایک بڑی مقدار کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسلحے کی پڑتال کے دوران چار لاکھ پانچ ہزار ایسے ہتھیار ہیں، جن کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ امریکا نے یہ اسلحہ افغان پولیس اور فوج کو فراہم کیا تھا۔

خیال رہے کہ 2004ء سے لیکر اب تک امریکا افغان حکومت کو سات لاکھ 74 ہزار AK-47 رائفلز، مشین گنیں اور گرینیڈ لانچرز کے علاوہ دیگر اسلحہ بھی مہیا کر چکا ہے۔ اس اسلحے کی مالیت 626 ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔

افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق ایک آزاد واچ ڈاگ SIGAR کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت کی طرف سے تیار کیے گئے مختلف ڈیٹا بیس پروگرامز میں کابل حکومت کو دیے جانے والے اسلحے کے بارے میں معلومات درست طریقے سے درج نہیں ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے اسلحے کی مناسب رجسٹریشن اور نگرانی نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔

Ausbildung afghanischer Polizisten durch deutsche Militärpolizei in Faisabad
’افغان فورسز کے پاس اب بھی ضرورت سے زیادہ اسلحہ ہے‘تصویر: Michael Kappeler/AFP/Getty Images

افغانستان کی کوشش ہے کہ وہ 2017ء تک اپنی سکیورٹی فورسز کی تعداد کم کر کے دو لاکھ 28 ہزار کر دے۔ اس وقت ان فوجی اور پولیس اہلکاروں کی تعداد تین لاکھ 35 ہزار ہے۔ اس واچ ڈاگ نے زور دیا ہے کہ اس نفری میں کمی کے منصوبے کے دوران اسلحے کی نگرانی بڑھا دینا چاہیے تاکہ مزید اسلحہ لاپتہ نہ ہو۔

SIGAR کے مطابق امریکا اور دیگر اتحادی ممالک نے افغان جنگ کے دوران افغان حکومت کو اس کے مطالبات سے زیادہ اسلحہ فراہم کیا ہے اور اب بھی افغان سکیورٹی فورسز کے پاس ان کی ضرورت سے زیادہ اسلحہ موجود ہے۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ امریکا نے ایسا کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا کہ افغانستان کو ماضی میں مہیا کیا گیا غیر ضروری اسلحہ ناکارہ کر دینا چاہیے۔ مثال کے طور پر افغان حکومت کو 2010ء تک ہزاروں AK-47 رائفلز مہیا کی گئی تھیں، جس کے بعد ضروریات کے تحت ان رائفلز کی جگہ دیگر جدید اسلحہ فراہم کیا گیا۔

اس واچ ڈاگ ادارے کے مطابق اس مخصوص وقت میں یہ معاملہ اس لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ رواں برس کے اختتام تک افغان نیٹو فوجی مشن مکمل ہو رہا ہے اور غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد وہاں سلامتی کی ذمہ داری افغان فورسز نے ہی سنبھالنا ہیں۔

اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ افغانستان میں اسلحے کی نگرانی اور پڑتال کا ایک مؤثر نظام وضع کرے اور غیر ضروری اسلحے کو ناکارہ بنایا جائے تاکہ وہ طالبان کے ہاتھوں نہ جا سکے۔

امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کی کوشش میں ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اب امریکی حکومت اس اسلحے کی نگرانی کے لیے بنائے گئے مختلف ڈیٹا بیس پروگراموں کو یکجا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس نے افغان حکومت سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسلحے کی نگرانی کا ایک مناسب نظام تیار کرے۔