امریکا کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہیں، پوٹن
18 اپریل 2015روس کے سرکاری رشیّا ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے ان کے اس بیان میں پوٹن بظاہر امریکا کے خلاف اپنے حالیہ سخت نکتہ نظر کے مقابلے میں نرم پڑتے دکھائی دیے۔ روس کے امریکا اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات روس کے ہمسایہ ممالک یوکرائن میں جاری بحران کے معاملے پر کافی تناؤ کا شکار ہیں۔ بلکہ باہمی تعلقات کو اب تک کی کم ترین سطح پر قرار دیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پوٹن کا کہنا تھا، ’’بین الاقوامی ایجنڈا کے حوالے سے ہمارے درمیان کئی معاملات پر اختلافات موجود ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسا بھی ہے جو ہم دونوں کو متحد کرتا ہے اور جو ہمیں مل کر کام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔‘‘ پوٹن کا مزید کہنا تھا، ’’میرا مطلب ہے دنیا کی معیشت کو زیادہ جمہوری، مناسب اور متوازن بنانے کے لیے عام کوششیں تاکہ ورلڈ آرڈر زیادہ جمہوری بن سکے۔ ہم ایک مشترک ایجنڈا رکھتے ہیں۔‘‘
پوٹن ماضی میں خاص طور پر امریکا اور عام طور پر مغرب کے خلاف انتہائی سخت لب وہ لہجہ اختیار کیے رہے ہیں۔ وہ یوکرائنی بحران کی ذمہ داری ان پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یوکرائن کے سابق صدر وکٹور یانوکووچ کی حکومت کے خلاف مغربی پشت پناہی میں بغاوت دراصل اس بحران کی وجہ بنا۔
روس کییف اور مغربی ممالک کی جانب سے لگائے جانے والے ان الزامات کو مسلسل رد کرتا رہا ہے کہ وہ یوکرائن کے مشرقی حصے میں سرگرم روس نواز باغیوں کو فوجیوں اور اسلحے کے ساتھ مدد کر رہا ہے۔ گزشتہ برس اپریل سے اب تک مشرقی یوکرائن میں چھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پوٹن کا یہ تازہ بیان محض دو دن قبل ہی نشر ہونے والے سالانہ کال اِن ٹیلی وژن پروگرام کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس پروگرام میں پوٹن نے الزام عائد کیا تھا کہ امریکا دنیا کے معاملات پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکا ’اتحادی نہیں ماتحت‘ چاہتا ہے۔ تاہم ان کی مغربی ممالک پر تنقید اُس سے قبل کے مقابلے میں کافی کم رہی۔
روس اور مغرب کے درمیان تناؤ کے باوجود فریقین کا یہ کہنا ہے کہ وہ یوکرائن تنازعے کے حل کے لیے رواں برس فروری میں مِنسک میں طے پانے والے امن معاہدے کی حمایت کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے بعد یوکرائن کے مشرقی حصوں میں کافی حد تک جنگ بندی ابھی تک قائم ہے۔